تجزیہ 29

15 جولائی 2016 کے ناکام بغاوت اقدام کے ترکی کی خارجہ و داخلہ پالیسی پر اثرات پرایک جائزہ

1457022
تجزیہ 29

پندرہ جولائی 2016  کو ترک حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فیتو کی جانب سے  منظم کردہ تا ہم ناکامی سے دو چار  ہونے والے  بغاوت اقدام لے بعد 4 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔

سیتا، سیکیورٹی تحقیقاتی  امور کے ڈائریکٹر مصنف ڈاکٹر مراد یشیل طاش کا اس موضوع پر جائزہ پیش ِ خدمت ہے۔

بغاوت کی ناکامی کے پیچھے  متعد د اسباب پائے جاتے ہیں۔ان میں سے اہم ترین عوام ی جانب سے بغاوت کو روکنے کے لیے  گلی کوچوں میں نکلتے ہوئے  باغیوں کے سامنے ڈٹ کر مزاحمت کرنا تھا ۔ نتیجتاً عوام سرخرو، جبکہ باغی ناکام ہوئے۔سیاسی  اداروں  کی باغیوں کے خلاف پالیسیاں اور مؤقف   بھی بغاوت اقدام کی ناکامی میں معاون ثابت ہونے والا ایک دوسرا سبب تھا۔ در اصل 27 اپریل2007 میں  ترک مسلح افواج  کے حکومت مخالف  سخت بیانات کے خلاف سول حکومت نے بھی سختی سے رد عمل کا مظاہرہ کیا،  فوج  کے بیان کو فوجیوں کے فرائض  کی حد کو پار کرنے کی نوعیت کے ہونے کا کہا گیا۔ یہ مؤقف سول سیاست کے مزید مضبوطی حاصل کرنے کا موجب بنا  اور سول۔ عسکری تعلقات    جمہوری اقدار کے اعتبار سے ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔

15 جولائی کے بعد ترک  خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں متعدد اہم پیش رفت کا مشاہدہ ہوا۔  داخلی سیاست میں بغاوت اقدام کے  فوراً بعد شروع ہونے والے   کلیننگ آپریشن کو کامیابی سے سرا نجام دیا گیا۔  سیکورٹی سمیت  عدالتی نظام، تعلیم و صحت  کی طرح کے اہم شعبہ  جات میں فیتو سے تعلق پائے جانے والے افراد کو  ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا؛ متعدد عدالتی کاروائی کے بعد قصور وار ٹہرے۔ ان میں سے اہم ترین ترک مسلح افواج  سے خارج کیے جانے والے  افراد تھے۔  اہم عہدوں پر فائز فوجی کارکنان کے اختیارات کو واپس لے لیا گیا اور  انہیں فوج سے  دور ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح محکمہ پولیس میں بھی سرایت کرنے والے فیتو کے ہزارہا کارندوں کو برطرف کردیا گیا۔

15 جولائی کے بعد سیکیورٹی سے متعلقہ اداروں میں کی گئی اصلاحات بھی حیاتی اہمیت کی حامل تھیں۔ اس دائرہ کار میں جنڈارمیری اور ساحلی محافظین کی کمانڈر شپ  کو وزارت ِ داخلہ سے منسلک کر دیا گیا، مسلح افواج   کے سربراہ اور فضائیہ، بحریہ اور بری افواج کے   کمانڈروں کی سرپرستی کے کردار کو تبدیل کرتے  ہوئے وزارت ِ دفاع کو مزید طاقتور بنایا گیا۔  سیکیورٹی بیوروکریسی کو فیتو سے پاک کرنے اور ملکی سلامتی اداروں میں اصلاحات کاپہلا نتیجہ انسداد ِ دہشت گردی کے معاملے میں حاصل ہوا۔

اندرونِ ملک PKK کے خلاف کہیں زیادہ مؤثر حکمتِ عملی کو اپنایا گیا تو شام میں داعش مخالف فرات ڈھال آپریشن شروع کرتے ہوئے  ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کی حرکات و سکنات اور اثرِ رسوخ کے دائرے کو کم سے کم سطح تک محدود کر دیا گیا۔

داخلی پالیسیوں میں رونما ہونے والی اہم ترین پیش  رفت میں سے ایک کہیں زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ 16 اپریل سن 2017 کو منعقدہ ریفرنڈم کے ذریعے ترکی میں حکومتی نظام کو تبدیلی کرتے ہوئے صداتی نظام وضع کر دیا گیا۔  اس تبدیلی کی بدولت پارلیمانی  نظام کا خاتمہ ہوا۔ بعد ازاں  پہلے انتخابات کے ذریعے  ترکی اپنے نئے نظام سے پوری طرح وابستہ ہو گیا۔

خارجہ پالیسی میں 15 جولائی ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سے قبل اپنی طاقتور فوج کو شامی بحران  کا موجب بننے والے  سلامتی مسائل کو کم سے کم سطح تک کرنے کے لیے استعمال کرنے میں زیادہ فعال  نہ ہونے والی حکومت نے ، بغاوت اقدام کے ایک ماہ بعد شام میں داعش دہشت گرد تنظیم کے خلاف شام میں ایک فوجی کاروائی کی۔  اس کاروائی کے نتائج  ترکی کی شام پالیسیوں  کے ایک دور میں داخل ہونے کا اشارہ دے رہے تھے۔ فرات ڈھال آپریشن کے ذریعے داعش کا ترکی کی سرحدوں سے صفایا کرنے والے ترکی نے  دہشت گرد تنظیم PKK کو دریائے فرات کے مغربی علاقوں میں طاقت پکڑنے کو ناممکن بنا ڈالا۔فرات ڈھال آپریشن کے فوراً بعد اس کی بار PKK کو براہ راست ہدف بنایا  گیا۔ 20 جنوری ، 2018 کو  شروع ہونے والی عفرین  عسکری کاروائی  کی بدولت اس تنظیم کو عفرین علاقے سے نکال باہر کیا گیا۔  اس طرح ترکی نے شام بحران میں کہیں زیادہ فعال کردار سنبھال لیا۔ اکتوبر 2019 کو چشمہ امن کاروائی  کے ذریعے  دریائے فرات  کے مشرقی کنارو  ں  کو بھی اہداف میں شامل کرنے والے ترکی نے PKK کو شام میں مؤثر بننے اور شمالی علاقوں میں دہشت گرد ریاست قائم کرنے کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔  ادلیب بحران کے حل کے لیے کوششیں صرف کرنے والے  ترکی نے مارچ ، 2020 کو شامی انتظامیہ پر  ادلیب میں کاری ضرب لگائی۔ ان تمام تر عسکری کاروائیوں نے ترکی کو سانحہ 15 جولائی  کے بعد کے ایام میں سفارتی میز پر مزید مؤثر بننے کا موقع فراہم کیا۔

اس اثر انگیزی  کا ایک دوسرا اہم ترین عنصر لیبیا ہے۔  لیبیا بحران میں سال 2011 سے سفارتی حربوں کو ترجیح دینےو الے ترکی نے  4 جولائی، 2019 کو اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم کردہ طرابلس حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے  باغی جنرل خلیفہ خفتر  کے خلاف قومی مطابقت حکومت  سے فوجی تعاون شروع کر دیا۔ اس دائرہ عمل میں قومی مطابقت حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے کرتے ہوئے  خفتر قوتوں کو طرابلس پر قبضہ جمانے سے روک دیا۔ بعد ازاں خفتر کو پسپا کرتے ہوئے لیبیا کے بل بوتے  خطے میں کھیلے جانے والے کھیل اور چالوں  کو ناکارہ بنا دیا۔  

نتیجتاً 15 جولائی کئی پہلووں سے ترکی کے لیے ایک کلیدی موڑ ثابت ہوا۔ داخلی پالیسیوں میں اپنی مزاحمت کو تقویت دینے والے ترکی  نے خارجہ پالیسیوں میں بھی کہیں زیادہ فعال اور آزادانہ کاروائیاں شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں ترکی کے رقیب ممالک اور اداکار مزید متحد ہونے لگے اور  ترکی کو بالخصوص مشرقِ وسطی میں جیو پولیٹیک دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔  دوسری جانب   مغربی ممالک اور خاصکر امریکہ کے ساتھ 15 جولائی کے سانحے کے بعد ترکی کے تعلقات میں کٹھن  حالات نے جنم لیا۔

15 جولائی سے 4 سال بعد  ترکی کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے تا ہم گزشتہ 4 برسوں کی کارکردگی ان چیلنجز کو زیر  کرنے کے لیے اسے توانائی بخش رہی ہے۔ اس توانائی اور متحرک پن کو ملکی سلامتی و خارجہ پالیسیوں میں کہیں زیادہ ایک ڈیموکریٹک ترکی کے لیے ایک موقع کی نظر سے  دیکھا جانا چاہیے۔



متعللقہ خبریں