تجزیہ 25

لیبیا میں حفتر کے خلاف قومی مطابقت حکومت کی قوتوں سے ترکی کے فوجی تعاون پر ایک جائزہ

1439474
تجزیہ 25

سیاسی، اقتصادی، سماجی  تحقیقاتی انجمن سیتا  کے سیکیورٹی ڈائریکٹر   اسوسیئٹ پروفیسر مراد یشل تاش کا لیبیا  کے معاملے پر  جائزہ۔۔

ترکی  خارجہ پالیسی کی ماضی قریب  میں لیبیا  کی طرح کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ترکی  نے لیبیا میں فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر کبھی حاصل نہ ہو سکنے والی ایک کامیابی حاصل کی ہے۔ رونما ہونے والے واقعات  کا  ترتیب وار جائزہ لینا  ذی فہم ہو گا۔ اپریل 2019 میں بغاوت کی کوشش کے ساتھ طرابلس کے اندرونی محلوں تک  پہنچنے والا باغی حفتر اگر ترکی کی لیبیا میں مداخلت نہ ہوتی  تو یہ طرابلس  پر قبضہ کرتے ہوئے  قومی مطابقت حکومت کا خاتمہ کر دیتا۔ طرابلس  پر قبضے کے ساتھ ترکی کو بحیرہ روم میں جیوپولیٹک  رقابت کے معاملے میں بے یارو مدد گار  چھوڑ دینے کا احتمال قوی تھا۔

مذکورہ نتیجے کا سد باب کرنے کے لیے ترکی  نے دو طرفہ ایک حکمت عملی پر عمل درآمد کیا۔ اولین  طو رپر  قومی مطابقت حکومت  کو محاذ پر جھڑپوں کے لیے منظم کرنے کا موقع فراہم کرنے والی ایک وسیع پیمانے کی  فوجی حکمتِ عملی کو وضع کیا۔  اس طریقے سے حفتر کے سامنے مسلسل شکست کھانے والی قومی مطابقت حکومت کی قوتوں  کے منظم ہوتے ہوئے طاقتور بننے کا موقع حاصل ہوا۔   علاوہ ازیں   ترکی  نے قومی مطابقت حکومت   کی قوتوں کو حفتر کے خلاف  عسکری امداد فراہم کرتے ہوئے حملے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  بکتر بند گاڑیوں  سے لیکر ڈراؤن اور مسلح ڈراؤنز  نے بھی لیبیائی فوج کو حرکات و سکنات میں معاونت فراہم کرتے ہوئے  انہیں حفتر پر برتری قائم کرنے کا موقع حاصل کیا ہے۔

مذکورہ سلسلے  کے نتیجے میں لیبیائی قوتوں کے حفتر کو روک سکنے اور حتی پسپا ہونے پر مجبور کر سکنے کی امیدیں  بلند ہونے لگیں۔  حفتر  کو اولین طور پر طرابلس کے جنوبی علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے بعد ازاں یہ پس قدمی کرنے پر مجبور ہو گیا۔

واطیہ کو نجات دلانے  سے طرابلس پر حملوں میں کافی حد تک کمی لائی گئی ہے تو دوسری جانب  حفتر کے خلاف آپریشن  کے متبادلوں میں بھی وسعت آئی۔  واطیہ پر قبضے کے  بعد پہلے طرخونہ کو نجات دلائی گئی پھر صیرطہ  کے خلاف وسیع پیمانے کی کاروائیاں شروع کی گئیں۔ اب کے بعد مذکورہ  فتوحات کو کسی سٹریٹیجک فتح  میں بدلا جانا انتہائی اہم ہے۔  اسی دوران ترک حکام نے 17 جون کو طرابلس  کا ایک اعلی سطحی دورہ بھی کیا۔

اس دورے کا مقصد قدرے واضح  ہے: لیبیا  کو یکجا کرتے ہوئے ملک میں استحکام کا قیام  ، اس میں کامیابی کی صورت میں ترکی   کی بحیرہ روم میں مقررہ  اولیت کو کہیں زیادہ محفوظ شکل دلانا اور بحیرہ روم میں ایک علاقائی اداکارا کی حیثیت  سے اپنے آپ کو منوانا ہے۔  اس ہدف کے حصول کے لیے میدان ِ جنگ میں حاصل کردہ کامیابیوں کو سفارتی  زمین پر بھی جاری رکھنے کے ساتھ ممکن بن سکتا ہے۔ اس نکتے پر چند عوامل پر زور دینا لازمی ہے۔

ان میں سے پہلا عمل مسئلہ لیبیا کو سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات۔ مصر کے اعتبار سے کسی علاقائی مسئلے کی شکل دینا ہے۔  جو کہ  ترکی کی خطے میں حرکات و سکنات کو محدود کرتا ہے۔ ترکی  کے ان تینوں ممالک کے  ساتھ دو طرفہ سطح پر مسائل کی طرح علاقائی ویژن اور نقطہ نظر  کے اعتبار سے تفریق بھی نمایاں  ہے۔ لیبیا میں ترکی  کی پوزیشن نے اس سہہ رکنی فریق کو مزید طیش دلایا ہے۔ تا ہم  لیبیا میں قطعی حل کے حصول کے لیے ا ن ممالک  کے بھی کسی نہ کسی طریقے سے اس سلسلے میں شامل ہونے  کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مذکورہ ممالک  کو سفارتی زمین پر  یکجا کرنا انتہائی اہم ہے۔

اس مرحلے پر روس اور ترکی کے مابین لیبیا کے معاملے پر مصالحت  بھی  اہمیت کی حامل ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  روس، شام کی طرح لیبیا میں بھی اپنی فوجی طاقت  کو پوری طرح منوانے سے قاصر رہا ہے۔ اس بنا پر  روس کےفوجی اثرِ رسوخ کو  مزید  مظبوطی حاصل کرنے سے قبل ہی لیبیا میں حل کی زمین کو ہموار کرنا لازمی ہے۔ اس  طریقے سے مصر۔ سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات اتحاد کی  کاروائیاں کرنے  کی طاقت کو کم سے کم سطح تک لایا جانا  ممکن  بن سکتا ہے۔

امریکہ کے لیبیا مساوات میں براہ راست  داخل ہونے کا احتمال معدوم ہے تو بھی  بحیرہ روم    میں محدود سطح کی حکمتِ عملی کے اعتبار سے  یہ لیبیا کو اہمیت  دیتا ہے۔ اس بنا پر ترکی،  امریکہ کی روس کے خلاف  پوزیشن کی وساطت سے لیبیا میں توازن قائم کر سکتا ہے۔

ترکی کی  لیبیا حکمتِ عملی کا اہم ترین  حصہ  قومی مطابقت حکومت کی حیثیت کو تقویت دلاتے ہوئے  سرعت سے اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے  پر مبنی ہے۔  اس کے لیے لیبیا کے سیکورٹی شعبے  سمیت سیاسی عبوری دور کے لیے ایک اہم فنکشن  ہونے والی سیاسی، سماجی اور سوشیالوجی  زمین کو تقویت دلانا حد درجے اہم ہو گا۔

 



متعللقہ خبریں