تجزیہ 12

کورونا وائرس کے پوری دنیا میں بڑھتے ہوئے اقصادی و سماجی مسائل پر جائزہ

1382494
تجزیہ 12

ماہِ جنوری میں چینی صوبے وہان میں ظہور پذیر ہوتے ہوئے  تین ماہ جیسے قلیل عرصے میں پوری دنیا میں سرایت کرنے والے کرونا وائرس  کی عام وبا نے عالمی نظام کو گہرائیوں سے متاثر کیا ہے۔ حالیہ دس برسوں میں عالمی سیاست  میں مختلف پیش رفتیں سامنے آ چکی ہیں۔نائن الیون  واقع  کے  ساتھ عالمی نظام  کو  سیکورٹی بحران  کا سامنا  کرنا پڑا تھا جس نے بعد ازاں داعش کے جنم لینے کے بعد مختلف ممالک میں طاقت پکڑنے سے یہ بحران مزید طول پکڑ گیا۔ سال 2008 میں پوری دنیا کو مالی بحران سے نبرد ِ آزما ہونا پڑا۔ جس کے بعد دس سال سے زائد کا عرصہ بیتنے کے باوجود عالمی نظام میں بہتری کے بجائے بد تری  کا مشاہدہ ہوا؛ معاشی صورتحال ایک بار پھر بگڑنے لگی ۔ اور حالیہ چند برسوں سے چین اور امریکہ کے مابین  تجارتی جنگ  نے عالمی معیشت کو خطرات سے دوچار شروع کر دیا  جس سے ایک نئے عالمی بحران کے جنم لینے کی توقعات میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر در پیش بحران، انتہائی دائیں بازو کے نظریات میں تیزی،  بین الاقوامی اداروں کے اثرِ رسوخ میں گراوٹ  اور شامی بحران کی طرح کے دیرینہ مسائل عالمی سسٹم کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشانات کھڑے کرنے کے موجب  بنے ہیں۔ تا ہم  کسی نے بھی ان مسائل کے عالمی نظام   کو قنوطیت پسندی اور غیر یقینی    کی جانب دھکیلنے  کے طور پر بیان نہیں کیا ۔ لیکن کورونا  وبائی مرض  توقعات اور ظاہری حیثیت سے کہیں زیادہ بڑھ کر کسی سنگین بحران کی جانب بڑھنے کا اشارہ دے رہا ہے اور اس سے عالمی نظام کا مستقبل بتدریج غیر یقینی کی صورتحال سے دو

سیکورٹی تحقیقاتی امور کے ڈائریکٹر اسوسیئٹ پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر  جائزہ ۔۔۔۔

کورونا  وائراس اب سے پہلے انسانی سلامتی کو براہ راست متاثر کرنے والا صحت کا ایک عالمی مسئلہ ہے۔ انسانی سلامتی کو انیس سو اسی کی دہائی  سے  عالمی سیاست و سلامتی کے مرکزی معاملات میں سے ایک کی حیثیت حاصل ہے۔ کورونا وائرس نے انسانی سلامتی و صحت پر وسیع پیمانے کے اثرات پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اس کے پہلے اور سب سے اہم اثرات بلا شبہہ عالمی اقتصادیات میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس مہلک مرض کے کب تک جاری رہنے، کب تک کنٹرول میں لیے جا سکنے سب سے اہم اثرات بلا شبہہ عالمی اقتصادیات میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس مہلک مرض کے کب تک جاری رہنے، کب تک کنٹرول م، انسانی صحت پر قائم کرنے والے نقصانات اور دوبارہ سے اپنا چہرہ نمو دار کرنے  یا نہ کرنے کے حوالے سے غیر یقینی  نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کرنا شروع کر دیا ہے جس کے اثرات  ہم سب محسوس کرنے لگے ہیں۔

چین کی شرح نمو کے مخالف سمت پکڑنے، چینی پیداوار  کے بعض شعبہ جات میں جمود کا شکار ہونے، اٹلی، فرانس، جرمنی اور اسپین کی طرح کے یورپی معیشت کے سر کردہ اداکاروں میں زندگی رک جانے  نے امریکہ کی طرح کے اداکاروں کو کاروائیاں کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکی مرکزی بینک فیڈ کی جانب سے سات سو ارب ڈالر کی خطیر مداخلت کے باوجود  مالی منڈیوں  میں اس کے اثرات تقریباً نہ ہونے کے مترادف ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرح کی عالمی اکانومی تنظیموں  کے مشیرِ اول کے بھی فرائض ادا کرنے والے کینت ریگوف نے دعوی کیا ہے کہ عالمی معیشت  اوپر تلے کساد بازاری کا شکار ہوتے ہوئے رسیسشن کی شکار ہو جائیگی۔ آکسفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے خارجہ قرضوں کے حامل ممالک  کے قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات سے دو چار ہونے  اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب امریکی مرکزی بینک  زیادہ عمل درآمد نہ ہونے والے  مالی وسعت پالیسیوں پر عمل پیرا ہو گا۔ فرانس  نے پانچ سو ارب یورو   کی خطیر رقم کو کورونا کے خلاف اقدامات میں استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیے جانے والے یہ اقدامات اقتصادی جمود میں سست روی  لانے سے قاصر ہیں کیونکہ عالمی معیشت اس وقت جمود کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو  پھر ایسا لگتا ہے کہ آئندہ کے دو برسوں تک عالمی معیشت میں بہتری ممکن نہیں بن سکے گی۔ یہ صورتحال بین الاقوامی سطح پر کٹھن حالات  کو جنم دے سکتی ہے اوراس سے   نازک اقتصادی حالات کے حامل ممالک کا دیوالیہ بھی نکل سکتا ہے۔ لہذا کورونا وبا عالمی معیشت کو کسی بحران  میں دھکیلنے  سے بھی آگے بڑھتے ہوئے  عالمی معیشت کے کسی نئے ڈھانچے کو وضع کیے جانے کا تقاضا پیش کر سکتا ہے۔

اس وبا کا عالمی نظام سے تعلق رکھنے والا ایک دوسرا پہلو عالمی سلامتی سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ جیسا کہ جمہوریہ ترکی کا کہنا ہے کہ "یہ مسئلہ عالمی سطح کا ہے لیکن جدوجہد قومی سطح  پر محیط ہے"۔ یہ عمل تمام تر ممالک   کو اپنا بچاؤ کرنے  کے طرائق  کو اپنانے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہر ملک اپنے آپ کو اور اپنے شہریوں کو  بچانے  کے لیے سرگرم ہے۔ چین، اٹلی، فرانس، امریکہ، اسپین ، امریکہ اور یورپ کے متعدد ممالک نے انتہائی سخت تدابیر  پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔  ترکی بھی اس حوالے سے شروع سے ہی وسیع پیمانے کی تدابیر اٹھانے والے ممالک کی صف میں شامل ہے۔ تمام تر ممالک  فضائی رابطے کو تقریباً پوری طرح بند کرچکے ہیں، فرانس نے تمام تر بری سرحدوں کو آمدورفت کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے تو  برطانیہ یورپ اور پوری دنیا سے ہٹ کر  ایک مختلف طرز کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ تا ہم تازہ خبروں کے مطابق  برطانوی عوام میں  ہر گزرتے دن افراتفری  کا ماحول پیدا ہونے کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔  دوسری جانب فرانس نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو موخر کر دیا ہے  تو اسپین نے نجی اسپتالوں کے انتظامی امور کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ ہالینڈ میں سال 1973 کے تیل کے بحران  کے بعد پہلی بار کسی وزیر اعظم  نے قوم سے خطاب کیا ہے۔  امریکہ میں وائرس کے پھیلاو کے بعد سے انفرادی  طور پر اسلحہ کی خرید میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگر یہ حالات جاری رہے تو افراتفری کا ماحول اولین طور پر  قومی سلامتی کے مسائل کے ظہور پذیر ہونے  اور بعد میں ملکوں کے اندر اور بین الامملکتی   دیگر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

عالمی وبا  نے عالمی اقتصادی و سلامتی کی طرح کے دو بنیادی ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔  یہ دونوں ستون عالمی سسٹم کے مستقبل کے کس  رخ کو اخیتار کرنے  کا تعین کریں گے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب کے بعد رونما ہونے والے حالات تمام تر عالمی اداکاروں   کو  قوتِ مدافعت  کی پیمائش   کی آزمائش  کے سلسلے میں داخل کریں گے۔

پہلی مزاحمت انفرادی سطح پر ملکی معیشت پر نظر آئے گی۔ مضبوط اقتصادیات وبا کے حوالے سے اٹھائے جانے والے  اقدامات کے لیے مالی مشکلات سے دو چار نہیں ہوں گی  تا ہم منظر عام پر آنے والے اتار چڑھاو  سے آخر کار یہ بڑی اقتصادیات  وسیع پیمانے کی مشکلات سے نبرد ِ آزما ہونے پر مجبور ہو جائینگی۔ کمزور اقتصادیات  کے پاس مزید کھونے کو کچھ باقی نہیں بچے گا ۔ دوسرا مزاحمتی ٹیسٹ سماجی و انفرادی نفسیات  پر  ہو گا۔ افراتفری اور کشمکش کے شکار ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافہ سماجی نفسیات  اور برتاو پر اثرِ انداز ہوگا جو کہ سیاسی افراتفری کا موجب بننے والے نتائج کو جنم دے گا۔  اس بنا پر سماجی مزاحمت قوی ہونے والے معاشرے کم نقصانات کے ساتھ اس دور سے نکلنے میں کامیاب رہیں گے۔ تیسرا ٹیسٹ حکومتوں پر ہوگا۔ معیاری عمل درآمد اور لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے والی حکومتیں  اس وبا سے کم سے کم سطح پر متاثر ہوں گی۔ کمزور مملکتیں مزید  لاغر بن جائینگی اور شاید انتہائی سنگین حالات کا سامنا کریں گی۔

اس وبا کے خاتمے کے بعد ہم سب کو ایک ملبے کا سامنا ہو نے کا احتمال قوی ہے۔ یہ ملبہ کسی نئے عالمی نظام کے قیام کے لیے کس طرح کی زمین ہموار کرے گا ہم سب اس کا مل کا مشاہدہ کریں گے۔



متعللقہ خبریں