تجزیہ 08

ترکی ۔ روس تعلقات کا کل اور آج، ڈاکٹر مراد یشل تاش

1364433
تجزیہ 08

ترکی۔ روس  باہمی تعلقات تاریخ کے اعتبار سے عمومی طور پر اتار چڑھاو کے  شکار رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں  ان دونوں ریاستوں کے درمیان  تعلقات کے  ایک اچھی سطح پر استوار ہونے کا   کہنا ناممکن ہے۔ ترکی  نے گو کہ سال 1964 میں ترک۔ امریکی تعلقات میں رونما ہونے والے اسلحہ کی پابندی کے بحران کے بعد سوویت یوین کے ساتھ قربت کی پالیسیاں اپنائی تھیں تو   بھی یہ اس میں قابل ِ ذکر حد تک کامیاب نہ ہو سکا تھا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین کا شیرا زہ بکھرنا  ماسکو اور انقرہ کے  باہمی تعلقات  کی مرمت کرنے کے  لیے ایک موقع اور وسیلہ ثابت ہوا  تو بھی خطہ بلقان، بحیرہ اسود اور قفقاز محور  پر رونما ہونے والی پیش رفت اور بحران اس  چیز میں رکاوٹیں کھڑی ہونے  کا موجب بنے ۔ اس دور میں یہ دونوں ممالک سرد جنگ کے بعد دنیا کے ایک نئے نظام  میں  اپنے اپنے کردار کو سنبھالنے کی دوڑ میں لگ گئے ،  یہی وجہ ہے کہ ترک۔ روسی تعلقات مطلوبہ سطح تک   نہ پہنچ سکے۔

سامعین  سیتا  کے سلامتی تحقیقاتی امور کے ڈائریکٹر اسوسیئٹ پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل تاش کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

تا ہم 2 ہزار کی دہائی کے ساتھ ہی ترکی اور روس  نے کہیں زیادہ  ذی شعور   بنیادوں پر باہمی تعلقات قائم کی جدوجہد شروع کر دی۔ ماسکو   ، انقرہ کو اپنا  رقیب تصور کرتا ہے تو بھی  اس نے توانائی سے لیکر تجارت  تک کے مختلف شعبہ جات میں   ترکی کو ایک شراکت دار کے طور پر  تصور کیا ہے۔ دوسری طرف انقرہ نے روس  کے ایک بڑے ہمسایہ ملک ہونے  اور خطے کے جیو پولیٹیک معاملات میں  حل کے حق میں ہونےو الی ایک پالیسی کو فروغ دینے کے زیر مقصد روس کے  ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی۔  نتیجتا ً ترکی اور روس کے درمیان متعدد شعبوں میں شراکت داری اور باہمی تعاون قائم ہوا اور ان دونوں  کے بیچ قربت نمایاں طور پر سامنے آنے لگی۔

تا ہم شامی بحران کے طول پکڑنے  نے ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا، بعد کے مرحلے میں  یہ دونوں ان تعلقات کو ایک مختلف ڈگر پر بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ اولین طور  پر سال 2015 میں ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ایک روسی طیارے  کو ترکی کی جانب سے مار گرائے جانا دونوں ریاستوں  کے درمیان سنگین سطح کا بحران  جنم پانے کا موجب بنا۔ سن 2016 میں دو طرفہ ڈپلومیسی کے نتیجے میں  دوبارہ مصالحتی  ماحول منظر عام پر آیا ۔ اس دن سے ترکی اور روس کے درمیان  ایک سٹریٹیجک قربت کی فضا قائم ہے۔ لیکن حالیہ چند ماہ سے روس   کی جانب سے شام میں مخالفین کے آخری قلعوں میں سے ایک ادلیب میں شامی انتظامیہ سے تعاون اور بذات  ِ خود  فضائی  حملے  ایک بار پھر  ترک۔ روسی تعلقات میں سوالات کھڑے  کرنے لگے ہیں۔

ترکی۔ روس تعلقات  محض شام  کے معاملے تک محدود نہیں۔ ماسکو ، ادلیب کے معاملے میں ترکی  کی جانب سے سوچی معاہدے کے ماتحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کا دعوی کر رہا ہے اور  ادلیب کے  ریڈیکل عناصر کے خاتمے  کے کام کو خود مکمل کرنے کے درپے ہے۔  تو  ترکی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے  کے لیے اسد قوتوں کے حملوں کے خاتمے کی ضرورت کا دفاع کرتا چلا آرہا   ہے۔ لہذا  مذکورہ حملوں کا سد باب ہونے تک ترکی کا بھی ادلیب میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات کافی معدوم دکھائی دیتے ہیں۔

یہ صورتحال انقرہ اور ماسکو کے درمیان ایک نئے بحران  چھڑنے کا موجب بن سکتی ہے اور  ان کے مابین قربت  جمود کے ایک دور میں نئے سرے سے داخل ہو سکتا ہے۔

حکومتِ ترکی،    تعلقات کےد وبارہ کسی   نئے بحران کا شکار نہ بننے کی خاطر دونوں  ممالک  کے باہمی مفادات پر زور دے رہا ہے۔ ان میں    دونوں کو حالیہ دور میں مزید قریب لانے والا ایس۔ 400 کا معاملہ شامل ہے۔ ترکی،  متحدہ امریکہ  کے اعتراضات کے باوجود ایس۔400 میزائل دفاعی نظام کو خریدتے ہوئے روس کے ساتھ باہمی تعلقات کو کس حد تک اہمیت دینے کا مظاہرہ کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ مزید برآں ترکی اور روس کے مابین دفاعی صنعت کے شعبے میں شراکت داری  کیے جانے کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ دوسری جانب  دونوں ریاستیں ترکی کی جوہری توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے  معاملے میں ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور روس اس منصوبے کی وساطت سے جوہری توانائی کے شعبے میں اپنی اعلی قابلیت کا لوہا منوانے کا متمنی ہے۔ یہ دونوں شراکت داریاں  بیک وقت روس  کی معاشی کساد بازاری  کو کچھ حد تک سہارا دینے کی خصوصیت  کی بھی حامل ہیں۔ توانائی کے معاملے میں دونوں ممالک  ایک دوسرے کے حاجت مند دکھائی دے رہے ہیں۔  ترکی ، روسی قدرتی گیس کے  اہم ترین خریداروں میں شامل ہے۔ اس  بنا پر یہ ایک قیمتی گاہک بھی ہے، ترکی بیک وقت روسی گیس کی براستہ ترکی خطہ یورپ   کو ترسیل میں بھی سٹریٹیجک اہمیت  کا حامل ہے۔ لہذا یہ دونوں ممالک  دو طرفہ طور پر ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ ترکی، روسی سیاحوں کے لیے کم خرچے پر  چھٹیاں منا سکنے کے لیے ایک جاذب نظر ملک بھی ہے۔  ترکی آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں روسی سیاح  سرِ فہرست ہیں۔

شام کا معاملہ چاہے جس حد تک بھی دونوں اداکاروں کے   درمیان تنازعات کا موجب ہے تو بھی  یہ اہم سطح کی شراکت  داری کی ایک مشترکہ زمین بھی ہے۔  ترکی کے بغیر کسی سفارتی زمین پر  روس فوجی فتح کا اعلان کرلے تو  اس کی  سیاسی   طور  پر  شام میں قابلِ دوام استحکام کے قیام  میں کامیابی  تقریباً نا ممکن ہے۔ ادلیب میں مزید شہریوں کی ہلاکتوں کا موجب بننا اور مقامی عوام کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ترک سرحدوں کی جانب   دھکیلنا  ماسکو کے  لیے ایک عقل مندانہ  حکمت عملی نہیں ، حتی اس کے بر عکس روس کے لیے اس کی مالیت کافی  زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں سے امریکہ نے موجودہ ماحول کو ایک موقع  کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا   ہے اور ا س نے ترک۔ روسی قربت کو ادلیب کے ذریعے زد پہنچانے  والے بعض حربے بھی اپنائے ہیں۔ اعلی ترین سطح پر امریکہ نے ادلیب میں ترکی کی صف میں شامل ہونے  کا اعلان کیا ہے۔

اگر ترکی اور روس ادلیب کے معاملے میں  مصالحت قائم کرنے میں ناکام  رہتے  ہیں تو اس صورت میں انقرہ۔ ماسکو   پٹی پر  ایک نئی کشیدگی ظہور پذیر ہو سکتی ہے اور کچھ مدت سے ثابت قدمی سے آگے بڑھنے والی قربت  پلٹا بھی کھا سکتی ہے۔ ادلیب اس بنا پر ترک۔ روسی تعلقات کے اہم ترین امتحانات میں سے ایک ہے اور اس معاملے کو حل کرنا ایک آسان کام نہیں۔ روس کو ترکی کے ساتھ قائم سٹریٹیجک تعلقات کو جاری رکھنا چاہیے اور  اسد قوتوں کے حملے کو  فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔



متعللقہ خبریں