پاکستان ڈائری 07

آج کے دور میں سوشل میڈیا اور انسانی اقدار

1361525
پاکستان ڈائری 07

پاکستان ڈائری 07

ایوان اسمبلی ہو یا سوشل میڈیا پر جگہ انتہا پسندی سرایت کرگئی ہے۔لوگ معاف نہیں کرتے بلکے دشمنی کو دل میں پال کر بڑا کرکے ایک دوسرے سے بدلے لیتے ہیں ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں۔ چاہے سیاسی بیان بازی کو ،عام گفتگو ہو یا جلسے میں تقاریر مخالفین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں اور ایک دوسرے کے گھروں میں موجود خواتین کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جائے ۔

صحافیوں کا یہ کام ہے کہ وہ خبر کے ساتھ تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ جب وہ تجزیہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں تو انہیں بہت بار شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔میں ان صحافیوں کی بات کررہی ہو جو بہت غیر جانبدار ہیں کسی پارٹی کے آلہ کار نہیں ہیں ۔کچھ صورتوں میں انہیں قتل تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور انکے پیشہ ورانہ فرائض میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے ۔کچھ صورت میں سیاسی دباؤ کی وجہ سے نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔

اگر سوشل میڈیا صارفین کو خاتون صحافی کی کوئی بات خبر تجزیہ برا لگ جائے تو اسکو ریپ اور تیزاب پھینکنے کی دھمکی دے جاتی ہے۔اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر من گھڑت کہانیاں گھڑ لی جاتی ہیں۔خاتون صحافی کی کردار کشی کر کے اس کو چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سی سیاسی جماعتوں اور اداروں کے میڈیا سیل کام کر رہے ہیں جس میں ایک آفیشل ہوتا ہے اور ایک وہ گروپ ہوتا ہے جو آفیشل تو نہیں ہوتا لیکن ان کو مکمل سپورٹ مالی مدد اور آشیرباد حاصل ہوتا ہے۔ یہ ٹیم بی سارا دن لوگوں کو گالیاں دیتی ہے ،ان کی کردار کشی کرتے ہے۔ یہ لوگ ہر جماعت اور ہر ادارے میں پائے جاتے ہیں لیکن ہر کوئی معصوم بن کر کہتا ہے ہماری آفیشل ٹیم سے اسکا کا کوئی تعلق نہیں ۔

صحافی کالم نگار مصروف ہوتے ہیں وہ ان اکاونٹس کا پیچھا تو نہیں کرسکتے لیکن ذرا سے آئی ٹی ہیلپ سے یہ اکاونٹ ٹریس ہوجاتے ہیں ایک ہی شخص معتدد فیک اکاونٹس ایک ہی آئی پی ایڈریس سے چلا رہا ہوتا ہے۔یہ کا زیادہ تر مرد کرتے ہیں اور خواتین کے نام سے منسوب جعلی اکاونٹس سے پروپیگینڈا کرتے ہیں وی پی این یوز کرتے ہیں لیکن ٹریس پھر بھی ہوجاتے ہیں ۔کچھ کیسز میں خواتین بھی یہ سب کررہی ہوتی ہیں اور یہ بھول جاتی ہیں کہ دفتر سے فیک اکاونٹ سے ٹویٹ کرتے وقت آئی پی ایڈریس انکی لوکیشن بتا دیتا ہے۔

سیاست دان بھی ایک دوسرے کے مخالف ٹویٹس ،تضحیک آمیز پوسٹ دیکھ کر مزے لیتے ہیں ۔میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عمران خان، مریم نواز، بلاول بھٹو یا دیگر سیاست دانوں نے اپنے کارکنوں کو یہ سر عام کہا ہو کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا احترام کریں یا گالی گلوچ سے پرہیز کریں ۔پی ٹی آئی کے ہمدرد مریم نواز اور بلاول کی کردار کشی کرکے خوش ہوتے ہیں اور مسلم لیگ ن اور پی پی ہمدرد بشری بی بی کی کردار کشی کرتے ہیں ۔اس پر تمام لیڈران چپ رہتے ہیں۔

 یہ سلسلہ قومی اسمبلی میں بھی جاری اور ساری ہے کہ ایک دوسرے کی کردار کشی اور تذلیل ہوگی۔قادر پٹیل نے اسمبلی میں ذومعنی اور نازیبا گفتگو کی لیکن کسی جمہوریت کے چمپین نے نہیں روکا ۔وہ ذومعنی گفتگو کرتے رہے اور انکے پارٹی ارکان مزے لیتے رہے۔

شاید یہ ہی پاکستان کی جمہوریت کا اصل چہرہ ہے جس میں گالی گلوچ، فحش گوئی، لعن وطعن اور ذومعنی گفتگو عام ہے اور یہ ہی معاشرے میں سوشل میڈیا میں سرایت کرچکی ہے۔

 



متعللقہ خبریں