تجزیہ 07

ادلیب میں اسد قوتوں کی معاہدے کی خلاف ورزیاں اور ترکی کا دباو

1361038
تجزیہ 07

 اسد انتظامیہ سے منسلک قوتوں نے روس اور  ایران کے بڑھتے ہوئے جاری  تعاون و امداد کے ساتھ سلسلہ آستانہ  کے برخلاف  ادلیب میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔  سٹریٹیجک  ایم4۔ ایم 5 شاہراہ کو کنٹرول میں لینے  کی شکل  میں  پیش قدمی کرنےو الی   اسد قوتوں نے سراقیب  سے لیکر الا عیص قصبے  پر محیط علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے تو  گزشتہ ایک برس میں  علاقے سے 15 لاکھ کے قریب انسان نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوئے ہیں۔  ادلیب میں  وسیع پیمانے کی فوجی کاروائیوں نے ملکی انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے  اب سیاسی حل سے  ہٹ کر کسی فوجی فتح کے متلاشی ہونے کی تصدیق کی ہے تو  ترکی نے اپنے عسکری  اقدامات  کے  ذریعے اس  چیز کی اجازت نہ دینے کا  برملا مظاہرہ کیا ہے۔

سیتا / خارجہ پالیسیوں کے محقق جان آجن  کا مندرجہ بال موضوع پر جائزہ

اسد قوتوں نے گزشتہ دو ہفتوں سے ادلیب  میں  اپنے حملوں میں تیزی  لا رکھی ہے تو   خشکی سے ایران سے منسلک شیعہ ملیشیاوں،  فضا سے   روس  کے تعاون سے  مخالفین کے خلاف پیش قدمی  کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ادلیب کے سب سے بڑے  قصبے معارت  الا نعمان پر قبضے کے بعد شمال کی  جانب رخ کرتے ہوئے  ایم4 اور ایم5 ہائی وے کو  ایک  دوسرے سے ملانے والے سڑیٹیجک اہمیت کے حامل سراکیب    بھی اب ان کے قبضے میں آ گیا ہے۔  لاکھوں  کی تعداد میں لوگوں نے   حملوں  کی زد میں آنے والے علاقوں سے ترک سرحدوں کی جانب سے راہ  فرار اختیار کر نی شروع کر دی ہے۔ ترکی  کو اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے ادلیب کی سرحدوں کے اندر قلعہ بندی  کرتے ہوئے   ملکی انتظامیہ کی قوتوں کو ایک الٹی میٹم دینا پڑا۔  تا ہم ملکی انتظامیہ کے براہ راست سراقیب  اور تفتاناز  کی  طرح کے علاقوں میں ترک فوجیوں پر حملے کے نتیجے میں ترکی، شام کی خانہ جنگی کے آغاز سے   ابتک پہلی بار  وسیع پیمانے پر  ملکی انتظامیہ قوتوں کو ہدف بنانے پر مجبور ہوا ہے۔ صدر  رجب طیب ایردوان نے  الٹی میٹم دیتے ہوئے  کہا ہے کہ اگر ماہ فروری کے اختتام تک اسد قوتوں نے سوچی معاہدے میں وضع کردہ سرحدوں سے انخلاء نہ کیا تو  پھر ہم عسکری کاروائی کرتے ہوئے ان کو زبردستی نکال باہر کریں گے۔

صدر رجب طیب ایردوان کے متعلقہ بیانات  اور ترک مسلح افواج   کی ادلیب کے اندر بھاری فوجی  سازو سامان کی ذخیرہ اندوزی  نے ترکی کی علاقے میں حرکات و سکنات کی ماہیت کو تبدیل کر دیا ہے جو کہ    علاقے میں ایک نئے دور  کے آغاز کا مظہر ہے۔ ترکی تا حال روس کے ساتھ کسی مفاہمتی زمین کو ہموار کرتے ہوئے  ملکی انتظامیہ کی قوتوں کو سوچی  سرحدوں سے نکال باہر کرنے کی تمنا رکھتا ہے  تا ہم  اگر  ایسا نہ ہوا کہ جس کا احتمال کافی معدوم دکھائی دے رہا ہے ترکی اور مخالفین   کی جانب سے اسد قوتوں کو  ترکی  کی 12 چوکیوں  سے  باہر  تک دھکیلنے   میں معاون ثابت ہونے والی کسی عسکری کاروائی  کے شروع ہو سکنے  کا احتمال  بھی قوی دکھائی دیتا ہے۔

 انتظامیہ کے علاوہ روس کی حالیہ ایام میں شامی علاقے میں کاروائیاں  ترکی کے قومی مفادات کو زد پہنچا رہی ہیں۔ روس کو    ترکی کے ایک اتحادی کے طور پر  اس کی قدرو قیمت  کو سمجھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ترکی  کی عسکری حل کی  مالیت  میں بلندی،  امن کی اہمیت کو سمجھنے اور روس کی جانب سے بھی اس کا ادراک کرنا  لازمی   دکھائی دیتا ہے



متعللقہ خبریں