پاکستان ڈائری - 51

طبقے میں ایک گروہ اتنا طاقت ور ہے کہ یہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہے کالے کوٹ والے دہشت گرد جنہیں ہم وکیل کہتے ہیں ان کی طاقت اور بدمعاشی اتنی بڑھ گی ہے جب چاہیے عدالتیں بند کرا کر سایلن کو ناکوں چنے چبوا دیتے ہیں

1324813
پاکستان ڈائری - 51

پاکستان ڈائری 51

جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں دشمن ایک دوسرے کے ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بناتے لیکن ایسا لگتا ہے اب سب کچھ بنا قوانین اور قاعدے کے ہوتا ہے ہم قوم نہیں ہم ہجوم ہیں۔نہ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں نا کسی سے ڈرتے ہیں، امیر چور کو چھوڑ دیتے ہیں غریب چور کو مار دیتے ہیں ،کرپٹ ترین کو لیڈر مانتے ہیں ایماندار کا مذاق بناتے ہیں ۔ہر چیز میں ملاوٹ ہے چاہیے اشیا خوردونوش ہو رشتے یا جمہوریت کچھ خالص نہیں یہاں انقلاب بھی اصل میسر نہیں۔یہاں پر بچوں کا گوشت کھایا جارہا ہے جب کویی عورت جنسی حملے کا شکار ہوتی ہے تو مذہبی ٹھیکیدار  کہتے ہیں برقعہ نہیں پہنا ہوگا لیکن کیا ۵ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی برقعہ پہنایں انکو کو نوچ کر مار کرکیوں پھینک دیاجاتا ہے۔نفرت کا راج کا قائم ہے ایک دوسرے کو لے کر عدم برداشت کا یہ حال ہے کہ والد اولاد کا قتل کررہے ہیں،پولیس والے سڑک پر خاندان کو مار کر بچ نکل جاتے ہیں، نقیب اللہ محسود کو قتل کردیا جاتا ہے اسکے والد کینسر سے جنگ ہار گیے قاتل تا حال آزاد، دعا منگی سڑک پر واک کرتی اغوا ہوجاتی ہے تاوان کے بدلے رہا ہوتی ہے اور گھٹن کے مارے جوان اس بات پر خوش تھے کہ دعا خوبصورت ہے مغربی لباس پہنتی تو اچھا ہوا وہ اغوا ہوگی یہ حال ہے بے حسی نفرت اور عدم برداشت کا یہاں۔معذور صلاح الدین کو پولیس نے اتنا مارا کہ وہ مرنے سے پہلے یہ سوال پورے معاشرے کہ منہ پر طمانچے کی طرح مار گیا کہ پولیس نے مارنا کہاں سے سیکھا۔ایک نفسانفسی کا عالم ہےہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے طاقت کے ایوانوں میں کرسی کی جنگ،ایوان میں میرا لیڈر مہان کی جنگ ، کورٹس میں سینکڑوں مقدمات التوا کا شکار ،عوامی منصوبے بی آر ٹی اورینج لائن سفید ہاتھی کی طرح ٹیکس پیر پر بوجھ اور ہسپتال جہاں غریب کو ای سی جی کے لیے بھی تین ماہ بعد کی ڈیٹ ملتی ہے۔کون سا شعبہ ہے جو خسارے میں نہیں جس ملک کے حکمرانوں کے بچے اور اثاثے باہر کے ممالک میں ہو وہاں اس ہی طرح عوام سسک سسک کر مرتے ہیں چاہیے انکو کتا کاٹ جایے ، سانپ کاٹ جایے ویکیسن نہیں ملتی ،غریب عورت سڑک پر بچہ پیدا کرتی ہے اور کرپٹ لیڈر باہر کے ملک میں علاج کرتا ہے۔چاہیے ایڈز کی وبا پھیل جایے یا ڈینگی غریب مرتا ہے اور طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے ان لاشوں کا استعمال اپنی سیاست کے لیے کرتے ہیں۔

اس ملک میں کچھ ادارے ایسے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں کچھ قانونی روکاوٹیں تو کچھ اتنے  طاقت ور کہ عام پاکستانی ان پر تنقید کرتے ہویے لاکھ بار سوچتا ہے کہ بولا تو کہیں جیل نا ہوجایے بولا تو کہیں غایب نا کردیا جاو۔اس ہی طبقے میں ایک گروہ اتنا طاقت ور ہے کہ یہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہے کالے کوٹ والے دہشت گرد جنہیں ہم وکیل کہتے ہیں ان کی طاقت اور بدمعاشی اتنی بڑھ گی ہے جب چاہیے عدالتیں بند کرا کر سایلن کو ناکوں چنے چبوا دیتے ہیں۔جب دل کرتا ہے کسی پر بھی حملہ کردیا ،کسی کی بھی پگڑی اچھال دی ، کسی پر بھی سیاہی پھینک دی ، کسی کا بھی سرپھاڑ دیا یہ وکیل مافیا زیادہ بن گیے۔جنگوں میں بھی ہسپتالوں پر حملے نہیں کئے جاتے وہاں بم نہیں گرائے جاتے لیکن ہمارے وکلاء کی انا اتنی نازک ہے ایک ویڈیو پر ان کی انا کو ٹھیس پہنچ گئی۔ہسپتال پر حملہ آور ہوگے ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ پڑھے لکھے ہیں ویسے بھی گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے لاء کالجز سے ایسے ہی گریجویٹس نکلیں گے وہاں سے بڑے قانون دان تو پیدا ہونے سے رہے۔وکلا نے ہسپتال کے شیشے توڑے، مریضوں لواحقین کو ہراساں کیامارا پیٹا،میڈیا کے نمائندوں کو مارا،پولیس پر حملہ کیا، اینٹیں برسائیں، وزرا کے ساتھ بدتمیزی کی اور پولیس کی وین نظر آتش کردی۔ڈاکٹرز اور عملہ بھئ جان بچانے کےلئے بھاگے پیچھے مریض دم توڑ گئے ۔

علاقہ میدان جنگ بنارہا اور عثمان بزدار کی حکومت انتظامیہ پولیس تماشہ دیکھتی رہی ۔جس صوبے میں ڈیڑھ سال میں 5 بار آئی جی تبدیل ہوئے ہو وہاں کی پولیس کہاں اس قابل ہوگی کہ وکلاء مافیا کو کنٹرول کرسکے ۔پنجاب کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار عمران خان تو سوٹ کرتے ہیں لیکن پنجاب کو نہیں ۔ان تمام حملہ آور وکلا کے لائسنس تاحیات کینسل کردینے چاہیے اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہے لیکن ایسا ہوگا کچھ نہیں یہ بات آپ لکھ لیں کچھ نہیں ہوگا اور کچھ عرصے بعد سب بھول جائیں گے اس ہی لئے معاشرہ انحطاط اور گرواٹ کا شکار ہے۔

 



متعللقہ خبریں