تجزیہ 33 (قربانی: تقویٰ، اصولوں اور عظمت سے قربت کا وسیلہ)

عید قربان کے دیرینہ مفہوم اور عصر حاضر میں اس کی افادیت پر پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1251190
تجزیہ 33 (قربانی: تقویٰ، اصولوں اور عظمت سے قربت کا وسیلہ)

زندگی ایک طویل میراتھون  اور  جستجو  کا دوسرا نام ہے۔ یہ مسلسل کوششیں صرف کرنے، کسی چیز کے حصول اور کامیابی  حاصل کرنے  کی تشویش بھی ہے۔ زندگی میں  شاید ہم ڈھیر ساری  چیزوں  اور مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی ہمارے دلوں میں  ایک کرب ہمیشہ رہتا ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے دباؤ تلے مسلسل بھاگ دوڑ  کرتے وقت ہم بعض اوقات  رکنے اور نظر ِ انداز  کردہ چیزوں پر توجہ دینے کی خواہش  کرتے ہیں۔ ہم  میں سے کون ہو گا جو  ماڈرن، پوسٹ ۔ماڈرن، پوسٹ ۔ٹروتھ جیسے چکر کے بیچ   پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے، مستقبل اور آئندہ کی نسلوں کے ورثے میں نہ چھوڑے جا سکنے والی اور  ہماری پہچان بنانے والی اقدار  سے دوبارہ  ہمکنار ہونا نہ  چاہتا ہو۔۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔

جی ہاں عید کے تہوار بھی انہی مواقع میں شامل ہیں، یہ زندگی کے شور شرابے میں رکنے، سستانے اور شستگی سے سرفراز ہونے کے لمحات ہیں۔۔۔

قربانی دینا،  ایک چار ہزار سالہ ریت  ہے۔ہم ایک بار پھر  عید ِ قربان کے ایام سے گزر رہے ہیں۔ روایتی ذرائع ، تینوں سماعی  ادیان ، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی  جانب سے  پیغمبر قبول کردہ  حضرت ابراہیم علیہ اسلام   کے روایت کے مطابق  دو ہزار برس قبل مسیح کے دور میں زندگی گزارنے کا کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم کو  رب العالمین سے صداقت   کاثبوت پیش کرنے  کے لیے اپنےفرزنداسماعیل  کی اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اس عظیم پیغمبر نے اس حکم کی بلا تردد بجا آوری کر دی تو پھر اس روز قربانی کردہ بکرے  کے بعد سے ہر برس عیدِ الضحی ٰ کے موقع پر قربانی  دینے کی رسم چار ہزار برسوں سے چلی آرہی ہے۔ کتنی مسرت کی بات ہے کہ  بکرے کی اُس پہلی قربانی کے بعد سے شاید دنیا کے قدیم  اور مقدس ترین  رسم و رواج کو اصولوں، عظمت اور فضلیت کی راہ میں جاری و ساری رکھا جا رہا ہے۔

قربانی ایثار و امداد کی نشانی ہے۔ یہ ایسی رسم ہے کہ جسے  عیدِ قربان کے موقع پر اللہ تعالی کی راہ میں قربانی دیے والے جانوروں کے گوشت کی احتیاج مندوں میں تقسیم  کو عالمی سطح پر ایک اجتماعی ارکانِ عبادت کے طور پر قبول   کیا جاتا ہے۔ عید کے علاوہ  کے ایام میں بھی شکرانے  اور ممنونیت  کے اظہار کے طور پر بھی قربانی کرتے ہوئے اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کیے جانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

جدید دور کا انسان لذت پسندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ذاتی تسکین کی دوڑ  کے وقت، دوسروں کے  لیے زندگی کو وقف کرنے کی سوچ   اور حاصل کردہ آمدنی کو ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹنے کو ماضی سے تعلق رکھنے والی ایک رسم کی نظر سے دیکھتا ہے، اسی طرح بعض لوگ قربانی دینے کے عمل کے ایک قدیم ریت ہونے اور موجودہ دور میں اس کی افادیت نہ ہونے کی سوچ رکھتے ہیں۔

قربانی یاد رکھنے اور رحم و کرم کے احساسات    مبنی ہے۔ کسی چیز کی قربانی صرف   مالی تقسیم  تک محدود نہیں بلکہ بیک وقت جذبات  کا بھی لین دین  بھی  اسی زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالی کی راہ میں دی گئی قربانی ایک طرف رب العزت کو یاد رکھنے کا وسیلہ ہے تو عید  کے تہوار اپنے اہل خانہ، والدین، دوست و احباب اور دنیا ئے فانی سے کوچ کر جانےو الے ہمارے عزیز واقارب کو یاد کرنے  کے  ایام بھی ہیں۔ اس جدید دور کی باگم پیل میں نظر انداز کردہ  اپنے چاہنے والوں سے مل بیٹھنا بھی اس تہوار کی خوبیوں میں شامل ہے۔ زندگی کی دوڑ میں شاید وہ لوگ اس  پہلو سے پوری طرح اندازہ نہ کر پاتے ہوں۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو سال بھر ان کی چوکھٹ پر اپنے چاہنے والوں  کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ تنہا چھوڑے عمر رسیدہ والدین کا انتظار ناقابل بیان ہے۔  ان کے لیے عید کے تہواروں کی قدر و قیمت کو ان سے بہتر شاید  ہی کوئی دوسرا شخص سمجھ سکے۔

عید قربان یتیموں  کاسہارا بھی ہے۔ ملنے جلنے اور بانٹنے  کا عمل بلا شبہ گردو نواح کے لوگوں سے شروع ہوتا ہے۔ تا ہم  اس کی کوئی حد نہیں پائی جاتی کیونکہ دلی جذبات کسی حد سے آرا ہوتے ہیں۔بڑے بزرگوں، یتیموں کی مزاج پرسی سے  شروع   ہوتے ہوئے دور دراز کے ممالک میں قربانی کے لیے امداد فراہم کرنا وہاں کے ضرورت مندوں کے کرب میں کچھ حد تک گراوٹ بھی عیدِ قربان کی فضیلتوں میں شامل ہے۔

قربانی ، نجات اور تقویٰ    بھی ہے۔قربانی لفظی طور پر قُربت، شکرانے کے جذبات  کا اظہار، تحفے تحائف دینے اور صدقہ دینے کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالی سے قربت  کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ قرآن ِ مجید کی آیت میں کیا خوب کہا گیا ہےکہ"قربانی   دیے جانے والے جانور کا گوشت اور نہ ہی خون  اللہ تعالی تک پہنچتا ہے،  رب العظیم تک پہنچنے والی چیز تقویٰ، نیک نیتی، اخلاص اورذمہ داری کا شعور ہے۔یہی وجہ ہے  کہ  اس نے قربانی کرنے کا فرض انسانوں پر ڈال رکھا ہے  تا کہ یہ آپ کو صراط ِ مستقیم پر چلنے   میں آپ کی رہنمائی کرتا  رہے اور  رب کی عظمت کا ادراک کرنے  میں  معاون ثابت ہو۔"

آج  مشرق اور مغرب میں بنی انسانوں کی بنیادی ضرورت کیا یہ سب  مندرجہ بالا عوامل نہیں ہیں؟ کیا یہ اصولوں، اقدار، عظمت، بھائی چارے، فضیلت  سے قربت ، نیک نیتی، مخلصانہ طور پر  اور ذمہ داری کے شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنا نہیں ہیں؟ مشرقی  معاشروں میں غربت و مفلسی   کی فضا  حاوی  ہے تو مغربی معاشرے مال و دولت کی فراوانی میں گم ہیں  ،  ان  سب کے لیے بھی  عید کے تہوار تنہائی کے خاتمے، مالی و جذباتی   لین دین اور انسانی اقدار کو زندہ  رکھنے  کا مفہوم رکھتے ہیں۔

قربانی  بعض چیزوں سے فراغت کا مفہوم بھی رکھتی ہے۔قربانی ان تمام عوامل سے ہٹ کر ضرورت پڑنے پر مال و جان سمیت ہر چیز کو اللہ کی راہ میں نثار کرنا بھی ہے۔ اللہ کریم سے قربت محض اس کی ذات کے قریب جانے کا معنی نہیں رکھتی۔  بلکہ یہ اس تک رسائی ہونے والی ہر چیز  سے قربت اور اس سے دور  لیجانے والے عوامل سےاجتناب  برتنے کا دوسرا نام بھی ہے۔  مختصراً یہ انصاف ، اچھائی، خوبصورتی،  بھائی چارگی  اور احسان   کی راہ سے  منحرف کرنے والے تمام تر عوامل اور دنیاوی رعنائیوں  سے کنارہ کشی اختیار کرنے  کی خوبیوں کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔

قربانی؛ محاسبہ، ضمیر اور مواقع بھی ہے۔ہر چیز کی  مال و دولت پر مبنی حیات و مفاد  سے تشریح  نہ  ہوسکنے،    ہماری پہنچ سے باہر   سے آنے والی صدا   کے سامنے گردن خم کرنے ، انصاف کے ترازو ، ضمیر اور باہمی تعاون    کو اپنا شیوہ بنانے کا دوسرا نام بھی قربانی ہے۔

اور قربانی تسلیمات  بھی ہے۔انسانوں کے لیے جائز وہی چیز جو کہ حلال اور قابل قبول ہو کیونکہ ہر قانونی چیز  جائز  اور جائز چیز حلال  نہیں بھی ہوسکتی۔  حقوق میں قوانین، معاشرے میں جائز حیثیت، اسلام میں  بخشش اور قلب و ضمیر  کے لیے رحمت  وقابل قبول  کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ ایسا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں ہم زیادہ تر ان کے برخلاف عوام میں محو ہو جاتے ہیں۔ انصاف کا دامن تھامنا، اچھائی کرنا، فضلیت اور عظمت کا مظاہرہ کرنا اکثر ہمارے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ چاہے جس قدر بھی کٹھن ، کرب دہ اور ناقابلِ برداشت ہی کیوں نہ ہو ، اگر ہم  دل ٹوٹے بغیر  ان سب کے سامنے گردن خم کر سکیں تو  بنی نو انسانوں کے طور پر  ناقابلِ حل کونسے مسائل باقی بچیں گے،  میں نہیں جانتا۔

ہماری قربانیاں 4 ہزار برسوں سے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل   ہیں تو کاش ہم بھی اپنے رب  کے سامنے اسی فضیلت سے فیض یاب ہوں۔

شاعر عبدالرحمان  قارا کوچ نے "دل مت دُکھا" نامی اشعار میں  ان تمام تر خوبصوریتوں اور انصاف کے ترازو کے سامنے انسانوں  کے گردن تسلیمِ خم کرنے کو بیان کیا ہے۔

"اونچے نیچے راستے

جب عشق ہوتا ہے تو  فاصلے کم ہو جاتے ہیں۔

لیٹو  اسماعیل کی طرح قربان ہونے  کے لیے

یہ چاقو  تمھیں تکلیف نہ دے "

ہمیشہ، اصولوں، اقدار، تقوی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے، حقیقی معنوں میں تسلیمات اور ہمیشہ احسان کے جذبات  کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی دعا او ر تمنا کے ساتھ آپ سب کو عید ِ الضحیٰ کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ  درد بانٹنے سے کم ہوتا ہے،  خوشی بانٹنے  سے پھیلتی پھولتی ہے۔  میں بنی نو انسانوں کے ایک فرد کی حیثیت سے  درد و دکھ میں تحفیف، امن و آشتی  میں پھیلاؤ اور دل و دماغ کے تازگی سے سرشار   عید  کے ایام گزارنے کی تمنا   کرتا ہوں۔



متعللقہ خبریں