پاکستان ڈائری - 31 ( یتیم شہر کی کہانی)

یہ اس شہر کی کہانی ہے جس کو کبھی روشنی کا شہر کہا جاتا تھا۔ادب ثقافت معیشت تہذیب و تمدن کا مرکز دور دور سے لوگ یہاں اپنی قسمت بدلنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔پاکستان کے بانی قائد اعظم کا جنم بھی یہاں ہوا اور اس شہر کو پاکستان کا دارلحکومت قرار دیا گیا

1247011
پاکستان ڈائری - 31 ( یتیم شہر کی کہانی)

پاکستان ڈائری - 31

یتیم شہر کی کہانی 

یہ اس شہر کی کہانی ہے جس کو کبھی روشنی کا شہر کہا جاتا تھا۔ادب ثقافت معیشت تہذیب و تمدن کا مرکز دور دور سے لوگ یہاں اپنی قسمت بدلنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔پاکستان کے بانی قائد اعظم کا جنم بھی یہاں ہوا اور اس شہر کو پاکستان کا دارلحکومت قرار دیا گیا۔تاہم ملک کی معیشت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے اس شہر کو لالچی مفاد پرست ٹھگوں کی نظر کھا گئ۔آمریت ہو یا جمہوریت یہاں حالات بگڑتے چلے گئے ۔فرقہ واریت، نسل پرستی، لسانی فسادات ،دہشت گردی یہاں سرایت کرنے لگی۔باہر جانا مشکل ہونے لگا کاروبار کرنا مشکل ہوگیا طاقت ور غنڈے جرائم پیشہ لوگ اسلحے کے زور پر کاروباری افراد سے بھتہ لینے لگے۔سڑکوں پر گن پوائنٹ پر کر شہریوں کو لوٹا جانے لگا۔ایک ٹیلی فون کال پر پورا شہر بند ہوجاتا میڈیا بند ہوجاتا شہر کا امن تباہ ہوگیا۔

ہر طرف کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگے ، غیر قانونی ہاؤسنگ سکیمز بن گئ،انتظامی بدنظمی عروج پر پہنچ گئ۔ندی نالوں پر تجاوزات آگئ شہری حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔طویل حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے تقریریں زیادہ کی باتیں بھی زیادہ کرتے ہیں اور بس کام کم۔پی پی پی کے لیڈران انگریزی میں تقریر تو بہت اچھی کرتے ہیں جمہوریت پر بھاشن بھی بہت اچھے دیتے ہیں لیکن عملی طور پر سندھ اور کراچی میں کچھ نظر نہیں آتا ۔بڑے بڑے علاقوں میں کالے شاپر اڑ رہے ہوتے ہیں اور فضاء میں کچرے کی بو عام ہے۔

گزشتہ کچھ سال سے کراچی موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔گزشتہ برس بارش نہیں ہوئی گرمی انتہا پر پہنچ گئ ۔موسم خشک اور گرم رہنے لگا ہے لیکن پی پی پی جمہوریت جمہوریت کرنے میں اتنا مشغول ہے کہ انہیں یہ بات نظر نہیں آرہی ۔جمہوریت امراء کے لئے کاروبار ہے اور اس کاروبار میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ۔

کراچی میں ہیٹ ویو کی وجہ سے سینکڑوں اموات ہوئیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اس کے بعد حالیہ بارش میں کراچی کے بیشتر علاقے ڈوب گئے۔باران رحمت کرپٹ لوگوں اور فرسودہ نظام کی وجہ سے زحمت بن گئ۔

لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا،گاڑیاں پانی میں بہہ گئ کروڑوں کا نقصان صرف دو دن کی بارش میں ہوگیا ۔چیزوں کا تو نعم البدل ہے لیکن انسانی جان واپس نہیں آسکتی ۔بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے 20 افراد اپنی جان سے چلے گئے۔جس میں دو بچے سائیکل پر جارہے تھے اور کرنٹ لگنے سے یہ دونوں  معصوم انتہائی تکلیف دہ موت کا شکار ہوگئے ۔ ان معصوموں کی لاشیں ایک گھنٹہ  پانی میں پڑی رہیں ۔ ایدھی کے کارکنان نے انکو وہاں سے اٹھایا حکومت اور کے الیکٹراک کا کچھ پتہ نہیں تھا۔

اس یتیم شہر کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جب ان بچوں کا جنازہ اٹھایا گیا تو چند  شہریوں نے جنازے میں شرکت کی جمہوریت کے مائی باپ سیاست دانوں کا کچھ نہیں اتا پتا نہیں کہ عوام کے غم میں شریک ہو ۔ روز محشر یہ بچے اللہ کے سامنے حکمرانوں کی شکایت کریں گے کہ ہم تو سائیکل لے کر باہر نکلے تھے بارش میں کھیلنا چاہتے تھے لیکن حکمرانوں کی کرپشن اور کے الیکٹرانک کی غفلت نے ہمیں موت کی آغوش میں پہنچا دیا۔قیامت کے دن کوئی تقریر کوئی بہانے کام نہیں آئیں گے اس دن مجرموں کو حساب دینا ہوگا۔

کراچی کا کوئی والی وارث نہیں یہ شہر یتیم ہوگیا ہے جس کا دل کرتا ہے اس شہر کو خوب لوٹتا ہے اور باہر محلات بنا لیتا ہے ۔کسی کو فکر نہیں کہ اس شہر کو صاف پانی کی ضرورت ہے، اس شہر کو ٹرانسپورٹ چاہئے، اس شہر کو درخت چاہیں،اس شہر کے شہریوں کو بنیادی زندگی کی سہولیات چاہیں ۔ بس ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کراچی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ووٹ دینے والو کے لئے جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے۔



متعللقہ خبریں