تجزیہ 30 (تبدیلی عمل کی سوشیالوجی اور ترکی)

ٹیکنالوجی کے اس دور میں معاشروں میں سماجی تبدیلیوں کے اثرات پر پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1241708
تجزیہ 30 (تبدیلی عمل کی سوشیالوجی اور ترکی)

ہم تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں شمولیت کے سلسلے، ہماری زندگیوں  کو مختلف زاویوں   سے اور  کئی پہلووں  کو نہ چاہتے ہوئے بھی بدل  دیتے ہیں۔ سلسلہ جہاں شمولیت کے ساتھ ساتھ،  تیز رفتار اقتصادی تبدیلیوں  کے بھی ظہور پذیر ہونے والے معاشروں میں  نشیب و فراز کا عمل بیک وقت  سامنے آتا رہتا ہے۔ میں آج کے تجزیے میں سماجی صورتحال اور ترکی   میں تغیر کے دور سے گزرنے والی سوشیالوجی کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ ۔۔۔

ماسلووف  اور ضروریات کی درجہ بندی

امریکی ماہر نفسیات ابراہم ماسلووف نے"ضرورت  کی درجہ بندی" نظریے  کے ماتحت انسانی برتاؤ کا تجزیہ کیا۔ ماسلووف نے اولین طور پر انسانوں کے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنے  اور   پھر ان ضروریات کو پورا کرنے کے بعد درمیانی اور بلند سطح کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کرنے کا  ذکر کیا ہے۔انسان کو محرک بنانے  والی ضروریات کو کسی  مخروطی مینار سے   تشبیہہ دینے والے ماسلووف  نے ان ضروریات کو وسیع ترین سے تنگ ترین    تک پانچ مختلف صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔اس مینار کی   مرکزی بنیادوں میں جسمانی ضروریات شامل ہیں۔بھوک، پیاس، قیام کی جگہ کی طرح کی ضروریات ان  میں شامل ہیں۔ دوسرے درجے کے احتیاج میں کام کاج، ملکیت اور ذاتی تحفظ، تیسرے درجے میں وابستگی، محبت ، سماجی مقام  و زندگی   وغیرہ، چوتھے درجے  میں  معیارِ زندگی، قدرو قیمت، عزت و احترام۔ معاشرے میں مقام، کامیابی، شان و شہرت ، اپنے آپ کو معاشرے میں نمایاں بنانا وغیر شامل ہیں۔ اس مخروطی مینار کی تنگ ترین چوٹی ذاتی تکمیل ہے۔ اس سطح پر اب انسان ابتدائی مرحلے کی بنیادی ضروریات سے کوسوں دور جا چکے ہوتے ہیں۔ کہیں زیادہ تخلیقی ،  زیادہ اخلاقی، اصولی مؤقف، اپنی انفرادیت کو ثابت کرنے کی کوششیں  اور اس سطح تک پہنچنے والے انسانوں کی توقعات اور محرکات  اسی زمرے میں  تصور کی جاتی ہیں۔ ماسلووف کے مطابق کسی ضرورت واحتیاج کو پورا کرنے کے بعد اس طرز کی ضرورت کو پورا کرنے کی محرکات  کا مفہوم اور قیمت ختم ہو جاتی ہے۔

سبک رفتار ترقی اور اس کے نتائج

ماسلووف کی جانب سے وضع کردہ ضروریات کے درجات  کے تجزیات کا معاشرے کے اندر با آسانی مشاہدہ ممکن ہے۔

سلسلہ جہاں شمولیت کی ڈگر پر بعض طبقوں نے قلیل مدت کے اندر سرعت سے اقتصادی ترقی کی۔چین، برازیل، ہندوستان کی طرح ممالک کے علاوہ ترکی بھی اسی صف میں شامل ہے۔ اقتدار کی آک پارٹی سے قبل فی کس دو ہزار ڈالر کی اوسط آمدنی کا حامل ترکی، معاشروں کے  لیے انتہائی کم مدت  کہے جا سکنے والے دورانیہ میں فی کس آمدنی 10 ہزار ڈالر سے تجاوز کرنے والا ایک ملک بن گیا۔

اس تیز رفتار اقتصادی تبدیلی کے بلا شبہہ معیشت، ثقافت، تعلیم، خاندان اور سیاست   جیسے زندگی کے تمام تر شعبہ جات  پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقتصادی ترقی  کی منصفانہ تقسیم  ایک علیحدہ موضوع ہے۔

اقتصادی ترقی کے اثرات

بدلنےو الی اقتصادی ترجیحات: معاشرے کا ایک قلیل مدت کے اندر پانچ گنا خوشحالی اور امیری سے ہمکنار ہونا  انسانوں کی اقتصادی ترجیحات میں قدرے تبدیلیاں لاتا ہے۔ زندگی بھر کفایت شعاری سےزندگی بسر کرنے والے کنبوں کو اپنے بچوں کے اخراجات اور کھپت کے طرز کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ ترکی کے لحاظ سے  بدلنے والی اس صورتحال کا موبائل فون کی ترجیح میں مشاہدہ ممکن ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ترکی میں موبائل فون تبدیل کرنے کی مدت  عالمی سطح کی اوسط مدت سے قدرے کم ہے۔

خاندانی تعلقات : اقتصادی ترقی، میاں ۔ بیوی اور بچوں کے باہمی تعلقات کو بھی سراسر  بدل دیتی ہے۔ اس سے قبل کے حالات میں کنبوں کی ضروریات نسبتاً  کافی زیادہ ہونے کے دور میں بچے زیادہ احترام پسند اور اطاعت کار تھے۔ معاشی ترقی کے بعد خاندان کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہےتو  کنبے کے افراد کہیں زیادہ آزاد اور کہیں زیادہ تنقیدی مؤقف اپنانے لگے ہیں۔

تعلیم: کم آمدنی   کے حامل کنبوں میں حصولِ تعلیم کو ترقی کرنے اور "ذاتی سطح میں بلندی" کے عنصر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تو کہیں زیادہ بلند آمدنی کے ماحول میں تعلیم کو محض ایک فارمیلٹی تصور کیا جانے لگا ہے۔

ثقافت۔فنون۔جمالیات: آمدنی کی سطح بڑھنے پر ثقافت، فنون اور جمال  میں دلچسپی اور خدشات بھی بڑھتے جاتے ہیں ، ان معاملات میں توقعات بھی بلند ہوتی جاتی ہیں۔

سیاست:1980 کی دہائی میں مملکتیں نسبتاً زیادہ با اختیار اور شہری زیادہ تحمل مزاج تھے۔ ریاستوں کے عصرِ حاضر میں کہیں زیادہ جمہوری ہونے کے باوجود اب  شہری کہیں زیادہ شکایتی مؤقف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہاں شمولیت اور معاشی فروغ کے ساتھ خاندانی افراد کی طرح فرد۔ریاست۔ معاشرہ تعلقات  میں تغیرات رونما ہورہے ہیں۔ یہ تبدیلی  سیاست اور سیاسی بیانات کو بھی متاثر کررہی  ہے۔ نئے سماجی نظریات فطری طور پر ایک نئے  طرز، لسان، بول چال اور کام کاج کے طریقہ کار کا بھی تقاضا پیش کرتے ہیں۔ ماسلووف کی ضروریات کی درجہ بندی  کی طرح امیر بننے والے، درمیانی اور اعلی سطح تک پہنچنے والے معاشروں کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا عندیہ دینا سیاسی مفادات  کو جنم نہیں دے گا۔ آمدنی کی بڑھنےو الی سطح ، سیاست میں سماجی توقعات  کو بھی تبدیل کر رہا ہے۔ دو ہزار ڈالر کی آمدنی  کی سطح کے وقت بعض اخراجات  معاشرے کی ایک بڑے حصے کی پہنچ سے باہر تھے۔البتہ اب دس ہزار ڈالر کی فی کس آمدنی کےماحول میں  اب بنیادی ضروریات پر بات کرنا انتہائی معدوم بن چکا ہے۔

سبک رفتار تبدیلی اور ثقافت

تیز رفتار ترقی  ہونے والے  ممالک میں شعبہ ثقافت   شدید ترین مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ معاشی ترقی  یا پھر عالمی خبر رسانی اور اطلاعات کی بدولت کئی چیزیں سرعت سے بدلتی جاتی ہیں۔ تا ہم یہ عمل شعبہ ثقافت میں کافی سست روی سے آگے بڑھتا ہے۔ ہم اس صورتحال کے اثرات کا تعلیم، سیاست، مرد۔ عورت تعلق کی طرح کے معاملات میں واضح طور پر مشاہدہ  کررہے ہیں۔ سماجی حیثیت میں تیزی  سے تبدیلی آنے کے وقت سماجی ثقافت کے اسی رفتار سے تبدیل نہ ہونے کے باعث ثقافتی شعبے میں تضادات سامنے آنے لگے ہیں۔

بین الاقوامی خبر رسانی اور اطلاعات

بدلنے والی عمرانیات  کی توضیح محض اقتصادی ترکی سےممکن نہیں۔ٹیکنالوجی ترقی ۔فرد۔ خاندان۔ریاست ۔ معاشرہ تعلقات میں بھی  تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ پہلے پہل افراد، قریبی اقرباء، دوست و اجباب ،  دورانِ تعلیم  اور آمنے سامنے  تعلقات کے ذریعے سماجی روابط قائم کرتے تھے تو اب ترقی پانے والی ٹیکنالوجی اور خاصکر سماجی میڈیا کی وساطت سے بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعے سماجی روابط استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ اس سے ملتے جلتے سماجی روابط   کا عمل درآمد شہریوں کے لیے بھی لاگو ہوتا ہے، ریاستیں بھی اب  شہریوں پر  محدود سطح کے اثرات ہی قائم کرنے کی اہل ہیں۔

نئے سماجی ماحول  کی تشکیل میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ عالمی خبر رسانی اور اطلاعات کا عمل دخل بھی کافی زیادہ ہے۔ معاشروں، ریاستوں  اور کنبوں  کے ماحول میں تبدیلیا ں آنے پر مجبور کرنے والی اصل چیز ، خبر رسانی اور اطلاعات کے ذرائع کی بدولت ا فراد۔مملکت۔معاشرہ اور عائلی تعلقات  کا دیگر ممالک میں وہاں کے خاندانوں میں کس نوعیت کے ہونے کا با آسانی مشاہدہ کر سکنے  والی سہولتوں تک رسائی ہے۔

اگر اس حوالے سے کوئی تاریخی موڑ  اور پہلو پایا جاتا ہے تو ہم سب اس کا بیک وقت مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہمارے بچے ایک نئے دور کی پہلی نسل ہیں تو ہمارے آباؤ اجداد ہزار سالہ رسم و رواج کی آخری کڑی کی طرح ہیں۔ ایک نسل کے طور پر ہم ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک جانب ہزارسالہ ماضی کے تجربات ، رسم ورواج سے آگاہ  ہیں تو دوسری جانب ایک نئے دور کی شروعات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سماجی روابط  میں سرعت  سے تبدیلیاں آنے والے اس ماحول میں  فطری طور پر ہمیں ماضی میں ہی پھنس کر نہیں رہنا چاہیے۔ مولانا جلال الدین رومی کا مندرجہ ذیل قول  ہمارے لیے تعلیم، عائلی تعلقات اور خاصکر سیاسی ماحول میں مشعلِ راہ ہے:

"کل کے ساتھ ہی چلا گیا  میرا ماضی

کل  کے جتنے بھی الفاظ ہیں، اب ماضی بن چکے ہیں

اب یہ دور  نیا بول بولنے کا ہے"

لیکن اپنے رسم و رواج سے دور ہٹے بغیر



متعللقہ خبریں