تجزیہ 27 ( چین کو کس نظر سے دیکھا جائے، حصہ دوئم)

اعغر ترکوں کے مسائل کے تناظر میں ترکی ۔ چین تعلقات کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1229641
تجزیہ 27 ( چین کو کس نظر سے دیکھا جائے، حصہ دوئم)

ہم نے اس سے قبل کے مقالے میں چین کے حوالے سے   سوالیہ نشانات ہونے کا  ذکر کیا تھا۔  اور چین کے انقرہ میں سفارتخانے کی دعوت پر اور   ارم آرگنائزیشن کے تعاون  سے چین کے اموری دورے کے  حوالے سے اپنے تاثرات سے  آگاہی کرائی تھی۔ آج بھی اسی سلسلے کو جاری رکھا جائیگا۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل  کا مندرجہ  بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔

دونوں ملکوں کی  تعین شدہ  حد بندیوں کو ہٹانے کی کوششیں: عوامی جمہوریہ چین اور ترکی  بنیادی تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے مالک   ہیں تا ہم 20 ویں صدی میں اس تاریخی  ورثے اور ان کے عظیم کردار میں اہم سطح کی حد بندی لائی گئی۔ توقع سے ہٹ کر یہ دونوں  ملک ،سلسلہ جہاں شمولیت   میں مغربی ممالک سے کہیں زیادہ  منافع بخش رہے۔   اب حالات کچھ یوں ہیں  کہ یہ دونوں  ان حدود کو پار کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔  ترکی اس عمل کو زیادہ نمایاں اور ظاہری شکل میں سر انجام دے رہا ہے تو چین  خاموشی اور گہرائی سے اس جانب پیش رفت کر رہا ہے۔

دونوں ملکوں  کو ایک دوسرے کی ضرورت:  ترکی بھی چین کی طرح سرعت سے ترقی کرنے والا آئندہ کے ایام میں دنیا کی چند  بڑی اقتصادیات کی صف میں جگہ پا نے کا ذکر کردہ ایک ملک ہے۔ چین اور ترکی عالمی سطح پر کہیں زیادہ کردار ادا کرنے کی کوششوں میں ہیں تو  ان کو عالمی اداکاروں کی جانب سے  محاصرے کا خطرہ  رہتا ہے۔ عالمی اداکاروں کے ساتھ یکطرفہ طور پر نہیں  بلکہ متوازن تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہونے والے دو نوں ملکوں  کو ایک جیسی سٹریٹیجک مشکلات کا سامنا  ہے۔ دونوں  ممالک  قدرتی وسائل  کے اعتبار سے  دوسرے ملکوں پر انحصار کرتے ہیں۔  عالمی سطح پر  مختلف پیش رفتوں کے  سامنے دونوں کی پوزیشن میں بھی مماثلت دیکھنے کو ملتی ہے۔  ان  کا امریکی پابندیوں اور دباؤ  کی دھمکیوں سے دوچار ہونا ،  امریکہ  کی مشرق وسطی پالیسیوں سے اختلاف ، پیداکنندہ اور تجارت کرنے والے ملک ہونا، اس بنا پر   مشرق وسطی سمیت  مصنوعات فروخت کرنے کے لیے دنیا میں جنگوں کے بجائے امن و استحکام کی ضرورت کا دفاع کرنا، بلندی کی جانب گامزن اداکار ہونے  کے باعث بند  دروازوں کی آڑ سے نہیں بلکہ کھلی پالیسیوں  کو ترجیح دینا،   ڈالر کے استعمال کی بنا پر پیدا ہونے والے بحرانوں کو دور کرنے کی خاطر اپنی قومی کرنسیوں کو استعمال کرنے کی جستجو وغیرہ ۔ جیسا کہ صدر رجب طیب ایردوان نے "گلوبل ٹائمز"   میں اپنے مقالے میں لکھا کہ دنیا کے کسی نئے نظام کے قیام کے لیے  ترکی اور چین کا باہمی تعاون حد درجے اہم ہے اور اس تعاون  کی استعداد کے لیے دونوں ملکوں کے باہمی مسائل پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ اعغر یا پھر کہیں زیادہ وسیع پیمانے کی حکمت ِ عملی کا تقاضا:

ترکی سے اس سے قبل چین کی دعوت یا پھر ذاتی طور پر  آنے والے ہر کس نے ہمیں چین کے اعغر ترکوں کے معاملے میں کسقدر حساس ہونے اور اس بنا پر اس موضوع کر ہرگز نہ چھیڑنے کی سختی سے تلقین کی تھی۔ یہ انتباہ میرے لیے کچھ زیادہ ذی فہم نہ تھا۔  اگر کوئی معاملہ انتہائی حساس ہوتا ہے تو اس پر بات نہ کرنا اور اسے نظرِ انداز کرناکس حد تک حقیقت پسندانہ تھا؟ یہ منصوعی پن کب تک جاری رکھا جا سکتا  تھا۔ علاوہ ازیں اگر یہ معاملہ اسقدر حساس ہے تو  کیا اس پر بات نہ کرتے ہوئے دیگر معاملات میں پیش  قدمی ممکن   تھی؟ کیا یہ اپنے آپ  پر دیکھا نہ ہوتا؟

وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ ہر چار   ملاقاتوں میں سے  تین  میں یہ معاملہ ایجنڈے میں آیا۔ زیادہ تر چینی وفود  کی جانب سے  اور بعض اوقات ہمارے وفد کی جانب سے  اس  کو زیر بحث لایا گیا۔ ششدر کر دینے  کی شکل میں اس معاملے  میں چینی فریقین میں ترک وفد سے زیادہ حساسیت کا مشاہدہ نہ کیا۔ ہماری جانب سے اس معاملے  کے کس شکل میں ہونے  سے ہم آگاہ ہیں۔  ہمارا یہ دورہ چین  میں  اس  معاملے   کو کس طریقے سے لینے کا  مشاہدہ کرنے کا وسیلہ ثابت ہوا ہے۔ چینی  فریق اس مسئلے  کو مغربی ممالک  کی جانب سے   ان کی پیش رفت کو روکنے کے لیے  مسلسل اچھالنے  والے ایک معاملے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ لوگ اعغر باشندوں کو  ان کے خلاف استعمال کردہ ایک آلہ کار کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کا  اندرونی معاملہ ہے، لہذا ترکی کو چاہیے کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ان کی خواہش ہے کہ مغربی ممالک کی  جانب سے چین کا بٹوارہ کرنے کی کوششوں میں  ترکی  ان کی حمایت نہ کرے۔

اعغر علاقہ ترکی ۔ چین تعلقات کے لحاظ سے ایک اہم معاملہ ہے۔ اعغروں  سے متعلق ترکی اور مغربی ممالک کی پوزیشن ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ بعض مغربی ممالک مسئلہ کریمیا میں  روس کے خلاف ہونے کی طرح  اعغروں کو چین کی ترقی میں راہ میں رکاوٹیں کھری کرنے کے زیر مقصد ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھ سکتے ہیں۔ ان ممالک  میں  اعغر لوگوں کے  ایک انسانی طبقہ ہونے سے بڑھ کر  اپنے خریف کو   نقصان  پہنچانے کا ذریعہ  ہونے کی سوچ پائی جا سکتی ہے۔لیکن ترکی کی اعغروں میں دلچسپی ، تاریخی اور ثقافتی اسباب  سمیت اقرباء تعلقات  کے باعث ہے۔  دیگر ممالک میں بھی ترکوں کے عزیز و اقارب آباد ہیں۔ترکی کے  ان معاشروں سے  تعلقات ترجیحی بنیادوں پر نہیں بلکہ تاریخی ذمہ داری  ہیں۔

ترکی کی ان ممالک سے توقعات ، ہر گز ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں بلکہ  ان معاشروں  کو سماجی، ثقافتی اور انسانی طور  پر امن و امان  کے ماحول میں زندگی بسر کرنے اور رہائش کردہ ممالک کی ترقی میں کردار اد اکرنے پر مبنی ہیں۔ ترکی، بلقان، روس، مشرق وسطی۔ ایران اور دیگر ممالک میں ترکوں کے وجود کو ان ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کو فروغ دینے  کے لیے ایک وسیلے کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ترکی اعغروں کی جانب  بعض ممالک  کی طرح نہیں دیکھتا، یہی وجہ ہے کہ ترکی کا ان ممالک کی طرح  کوئی دوسرا ایجنڈہ اور کوئی خفیہ مقصد نہیں پایا جاتا۔

مشترکہ اموری گروپ:

اعغروں کو  چین کے خلاف استعمال  کر سکنے کی حساسیت کے حوالے سے  اس ملک کے  ہاتھ کو مضبوط کرسکنے والا واحد ملک شاید  ترکی ہے۔ چین کی جانب سے کہیں زیادہ  واضح پالیسیوں پر عمل درآمد ، ترکی کے ساتھ قریبی تعاون میں ہونا اس کے خلاف چلی جانےو الی چالوں کو ناکام بنانے میں بھی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس دائرہ کار میں دونوں  ممالک کا ایک دوسرے کو دور  سے مشکوک نظروں سے دیکھنے کے بجائے  قریبی تعاون  لازم و ملزوم ہے۔ اس ضمن میں اعغر علاقے سمیت  چین اور ترکی کے باہمی مسائل کے حل کے لیے  ایک مشترکہ ورکنگ گروپ  تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب  اعغر علاقے میں  رونما ہونے والے واقعات کو ہم نظر ِ انداز  بھی نہیں کر سکتے۔  ویسے بھی اس طریقے سے حقیقت پر مبنی تعلقات قائم کرسکنا نا ممکن ہے۔ اس کے برخلاف کسی مؤقف سے ترکی، چین اور اعغر ترکوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اولین طور پر ترکی۔چین تعلقات سے متعلق  ہمیں ایک حکمتِ عملی نقطہ نظر کو سامنے لانا چاہیے۔ اعغر وں کو ترک۔ چین سٹریٹیجک تعلقات کا مکمل طور پر نہیں بلکہ محض  ایک حصہ ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں پیش رفت طرفین کے کہیں زیادہ قریبی طور پر کام کرنے اور کسی حکمت ِ عملی نقطہ نظر سے  ہی ممکن بن سکتی ہے۔

نتیجتاً چین  کی اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی  میں جدت،  دنیا بھر میں بتدرج بڑھنے والے اثرِ رسوخ اور ترکی کے ساتھ وسیع استعداد کے تعاون کو نظر ِ انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے یہ انکار کرتا ہے تو بھی  چین سُپر پاور  بننے کی راہ میں سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ چینی سیاست،  بین الاقوامی تعلقات، معیشت، سماجی زندگی، ثقافت، سول و عسکری ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات کے بارے میں سرکاری اداروں، جامعات، تھنک ٹینک تنظیموں اور نجی شعبے کو بہت زیادہ کام کرنے اور ان شعبوں  میں ماہرین کی تربیت لازمی  اور آشکار ہے۔ اس حوالے سے سفر کے آغاز پر ہونے کے شعور کے ساتھ ہمارے ملک اور اس کے مشنری دفاتر کو عالمی  سطح پر کردار ادا کرنے کے لیے چین کے ساتھ باہمی تعلقات  میں  وسیع پیمانے کی معلومات اور اپنے پیش نظر کی روشنی میں سٹریٹیجک  تعاون ضروری ہے۔



متعللقہ خبریں