تجزیہ 26 (چین کو کس نظر سے دیکھا جانا چاہیے؟)

صدر رجب طیب ایردوان کے دورہ عوامی جمہوریہ چین سے قبل پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا چین پر عمومی جائزہ

1225704
تجزیہ 26 (چین کو کس نظر سے دیکھا جانا چاہیے؟)

صدر رجب طیب ایردوان ماہ جون کے اختتام پر جاپان میں منعقد ہونےو الے جی۔20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کریں گے۔

سامعین  انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی  کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل  کا اس حوالے سے جائزہ ۔۔۔۔

جب کبھی بھی  اعلی سطحی دورے کا معاملہ زیرِ بحث آتا ہے   چینی میڈیا کے بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن ترکی چین مخالف خبریں  ایجنڈے میں آجاتی ہیں۔ اس ایجنڈے کا مرکز اعغروں کا مسئلہ ہوتا ہے۔

مسئلہ اعغر کے  حوالے سے میڈیا میں  جگہ پانے والی خبریں کس حد تک درست  ہوتی ہیں، کس حد تک مغربی اشاعتی عناصر  کے زیرِ اثر ہوتی ہیں، ترکی۔چین باہمی تعلقات کو متاثر  کرنے کا مقصد رکھتی ہیں ، میں نہیں جانتا۔  لیکن یہ تمام تر خبریں  چین کے حوالے سے  ذہنوں کو الجھانے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ میں اس تحریر میں ، ایک رسک والا  اور کٹھن کام ہی کیوں نہ ہو کہیں زیادہ وسیع پیمانے کے نقطہ نظر سے چین کی جانب کس  نظر سے دیکھے  جانے  کے تقاضے پر بات کرنے کی  کوشش کروں گا۔ کیونکہ یہ ذہنی الجھن ترکی، چین اور اعغروں کے لیے  کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں دیتی اور محض تمام تر طرفین میں شک و شبہات کو مزید شہہ دینے کا موجب بنتی ہے۔

12تا 20 جون 2019 کو چین کے انقرہ میں سفارتخانے کی دعوت اور ارم آرگنائزیشن  کے ذریعے  بعض تھنک ٹینک تنظیموں کے صدور،   شعبہ تعلیم سے منسلک شخصیات اور میڈیا کے نمائندوں  کے ہمراہ   ُکل  7 افراد  نے  چین کا اموری دورہ کیا۔ میں چین میں بات چیت ہونے والی ممتاز تھنک ٹینک تنظیموں اور سرکاری ملازمین  کے ساتھ بیجنگ، شنگھائی، ہانگ ہزو میں منعقدہ سرگرمیوں  کے حوالے سے ذاتی مشاہدات کو اس تحریر میں جگہ دوں گا۔

عمومی حیثیت

چین  1٫4 ارب نفوس کے ساتھ  واحدانہ طور پر عالمی  آبادی کے 20 فیصد سے زائد پر مشتمل ہے، یہ جغرافیائی اعتبار سے بعض خطوں  سے بھی بڑا ہے۔

چین   میں آمدنی کی تقسیم  میں ایک خاص شرح تک پہنچنے، بنیادی ڈھانچے کے مسائل  کے بڑی حد تک حل ہونے   کا پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے۔ فی کس 10 ہزار ڈالر  کی آمدنی  کا جن جن علاقوں  کا ہم نے دورہ کیا وہاں پر اس کے اثرات کافی نمایاں ہیں۔ شاہراہوں، بنیادی ڈھانچے، گاڑیوں، شو رومز اور برانڈڈ منصوعات   اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

بیجنگ اور شنگھائی  کی سیر کے دوران چین کے علاوہ کسی دوسرے  مقام پر ہونے کا  احساس  پیدا ہوتا ہے یعنی    یہ شہر جاپانی یا پھر کسی مغربی شہر کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔  ہو سکتا ہے کہ نواحی علاقے ابھی بھی چین کی روایتی   ساخت کو برقرار رکھے ہوں۔

بعض ممالک میں اکثر و بیشتر دکھائی دینے والی بے تکا شہری آباد کاری کا چین کے سیر  کردہ مقامات  پر ہم نے مشاہدہ  نہیں کیا۔ مذکورہ ممالک کے شہروں کے قلب میں کسی خنجر کی طرح  گھونپی گئی ، تاریخی ساخت کو، اس کی اصلی شناخت کو اور آب و ہوا کو بگاڑنے والی  عمارتیں چین میں   کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ کشادہ سڑکیں،  خالی اراضی، بڑے بڑے پارک، دیو قامت  درخت، ہریالی والے وسیع رقبے،  پیشہ ور ڈیزائنوں کی حامل معماری، بلند  و بالا عمارتوں کے انسانوں پر پیدا کرنے والے منفی اثرات کا  موقع نہیں دیتے۔ بلند عمارتوں کا نظریہ  متعدد مقامات پر شہروں  کی پہچان کو ختم کر دیتا ہے تو معماری، فطرت اور ماحولیات پسند ڈیزائنگ  کے توسط  یہ بیجنگ اور شنگھائی  کی شہری پہچان کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔  گنجان آباد ہونے کے سبب آپ چین میں بھارت  کی طرح انسانوں کے ہجوم کا سامنا کرنے کی توقع رکھتے ہیں ، تا ہم  آپ کو چین میں ہجوم  دکھائی نہیں دیں گے۔یعنی  گلی کوچوں میں دکھائی دینے والے لوگوں کی شرح استنبول سے بھی کم ہے۔ 25 ملین  آبادی کے حامل شنگھائی  اور 22 ملین کی آبادی کے مالک بیجنگ  کے درمیان فرق استنبول اور انقرہ جیسا ہے۔  ان میں سے ایک عالمی شہر کی حیثیت کا حامل ہے جو  کہ عالمی روابط اور ثقافت  سے زیادہ ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے  جبکہ دوسرا زیادہ تر اپنے  خول کے اندر روایتی چینی آداب و اطوار کا مالک ہے۔

عوامی جمہوریہ چین میں تیز رفتار ترقی   کی  بنا پر معیار کا فقدان  واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ خاصکر خدمات کے شعبے میں  وسیع پیمانے  کے عمل درآمد  کے ساتھ ساتھ  بعض مقامات  پر خستہ  قسم کے عمل درآمد کا بھی مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

طاقتوربننے کی راہ میں سرعت سے پیش قدمی کرنے والی دنیا کی دوسری بڑی معیشت:

عصرِ حاضر میں چین امریکہ کے بعد دوسری بڑی معیشت ہے۔  عالمی معیشت میں اس کا حصہ سن 1978 میں 1٫8 فیصد جبکہ 2017 میں 18٫7 فیصد تھا، یہ 3٫12 ٹریلین ڈالر  کے ساتھ دنیا  بھر میں زرِ مبادلہ کے سب سے وسیع ذخائر کا مالک ملک ہے۔ سال 2018 میں 6٫6  فیصد کی شرح نمو  کے حامل چین کے سال    2050      میں دُنیا کی مجموعی پیداوار کے 20  فیصد  کا مالک  بننے کی توقع کی جاتی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس کے بعد ہندوستان کا نمبر ہو گا تو امریکہ پیچھے ہٹتے ہوئے تیسرے نمبر پر آجائیگا۔

اس اقتصادی ترقی کے سماجی زندگی پر اثرات بھی نمایاں ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین  کے قیام کے برس سن 1949 سے  لیکر  دوسرے ممالک کے ساتھ  لین دین کی اجازت   کے اعلان   کے برس 1978 تک صرف   دو لاکھ چینی شہری دوسرے ممالک  کی سیر  کر سکے تھے  اور اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ گزشتہ برس 130 ملین افراد   نے  دوسرے ملکوں کیا سفر کیا  تھا۔

ترقی یافتہ مالی و ٹیکنالوجی  تہذیب:

چین مالی و ٹیکنالوجی اعتبا سے قدرے ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ جس کا مشاہدہ چین  کی روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہواوئی  کے ریسرچ سنٹر کے دورے کےد وران ہم نے ریموٹ پروڈکشن، ریموٹ  ایگریکلچرل ،  آلات کے استعمال وغیرہ کا مشاہدہ کیا۔

کیا کھوئی ہوئی شناخت، ثقافت، تعلقی یا پھر چینی طرز کی جدت  ممکن ہے؟:

مالی و فنی تہذیب  ایک ناقابلِ پہنچ چیز نہیں ہے، ترکی کا تجربہ بھی  اس چیز کا مظاہرہ کرتا ہے کہ کسی ملک کی مالی حالت 10 تا 15 برسوں میں مکمل طور پر بدل سکتی ہے۔  اس میں اہم چیز  مالی تہذیب کے حصول کا منبع  اور اس میں  پرانی شناخت و ثقافت کا  کتنا حصہ ہے۔ وہاں جانے سے قبل ایک سپر پاور کے طور  پر ابھرنے والے عوامی جمہوریہ چین کے اس میں کامیابی حاصل کرنے یا نہ کرنے،  اپنی منفرد جدت کو جنم دینے  یا نہ دے سکنے یا پھر کئی ایک دوسرے مقامات میں دکھائی دینے کی طرح مغربی جدت   کے زیرِ تسلط   آنے یا نہ آنے  جیسے سوالات میرے ذہن میں الجھے ہوئے تھے۔  لیکن چین کے جدید چہرے کا مظاہرہ کرنے والے مقامات  پر  نمایاں مغربی ثقافت ، مغربی فرموں، طرز، ملبوسات اور فیشن  کا مشاہدہ  کرنے پر میرے  یہ سوالات کافی حد تک  جواب پا گئے۔ شو رومز میں چینی طرز کے ملبوسات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ حتی ماڈلز  بھی مغربی طرز کے تھے۔

امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ:

امریکہ   کو چین کےساتھ تجارت میں سال 2018 میں 419  ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے ڈکیتی کے  طور پر پیش کردہ  اس امریکہ ۔ چین تجارتی جنگ  کی بنیادی  ترین وجہ  یہی فرق ہے۔

دنیا بھر میں اسی موضوع پر بات چیت ہو  رہی ہے تو جن جن چینی شہریوں سے میری بات ہوئی وہ اسے  تجارتی جنگ کے طو ر پر  بیان کرنے سے کترا رہے تھے۔  اوباما  کے دور میں امریکہ کی جانب سے سد باب کیے جانے کی حامل  رقابت کے اب ٹرمپ کے دور میں محاصرہ کرنے کے خطرات سے دو چار ہونے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس جنگ کے کہاں تک جانے کے معاملے میں یہ لوگ خدشات رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم پر انصاف رقابت کے لیے تیار ہیں۔ 800 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہونے اس بنا پر اس تعلقات کو ختم کرنے والے اقدامات اٹھائے جانے کے مشکل ہونے  اور اس دائرہ کار میں چین۔ امریکہ تعلقات کے امریکہ ۔ ایران تعلقات کی طرح نہ بننے کی سوچ رکھتے ہیں۔

کیا چین سپر پاور ہے؟: چینی  حکام اپنے آپ کو سپر پاور کی اصطلاح سے منسوب کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔  شاید یہ ایشیائی انسانوں کی مروت  ہے یا پھر حکمت عملی کی ایک کڑی ہے۔ یہ لوگ  دنیا کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرتے وقت روس سمیت  کسی بھی  ملک کے اتحادی نہ ہونے  محض شراکت دار ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔



متعللقہ خبریں