پاکستان ڈائری - 16

دامن کوہ اسلام آباد کے دامن میں بچوں کے لئے مشہور پارک پلے لینڈ اور مرغزار چڑیا گھر واقع ہیں۔ چڑیا گھر کا قیام 1978 میں عمل آیا اور اس کا انتظام میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد ( ایم سی آئی) کے انڈر آتا ہے۔

1185942
پاکستان ڈائری - 16

پاکستان ڈائری -16

دامن کوہ اسلام آباد کے دامن میں بچوں کے لئے مشہور پارک پلے لینڈ اور مرغزار چڑیا گھر واقع ہیں ۔پاکستان بھر کے بچے ان دونوں جگہوں پر آنا پسند کرتے ہیں ۔پلے لینڈ کے جھولے اور چڑیا گھر میں موجود جانور بچوں کے لئے تفریح کا باعث ہیں ۔ https://www.youtube.com/watch?v=5U7u6vZCnjQ&feature=youtu.be

چڑیا گھر کا قیام 1978 میں عمل آیا اور اس کا انتظام میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد ( ایم سی آئی)  

کے انڈر آتا ہے۔شروع میں چڑیا گھر میں بہت سے جانوروں رکھے گئے جن میں شیر،  ہاتھی، بندر ، شتر مرغ ، نیل گائے، ہرن،طوطے مور،بطخیں، سانپ،گیڈر ،لومڑی، زیبرے،چڑیاں، خرگوش، گلہریاں،گینڈے وغیرہ شامل تھے۔کچھ عرصے بعد یہاں پر برڈ ایویری بھی بنا دی گئ۔

https://youtu.be/5U7u6vZCnjQ

1991 میں جب اس چڑیا گھر میں سہیلی ہاتھی سری لنکا کی حکومت کی طرف سے تحفے میں آیا تو اسلام آباد کے بچوں نے گرم جوشی سے اسکا استقبال کیا۔اس وقت زو کی رونق ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ہر طرف صفائی، شرارتیں کرتے بچے اور جانوروں کے صاف ستھرے پنجرے اور صحت مند جانور سیاحوں کے لئے کشش رکھتے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ صورتحال بدلتی گئ۔2012 میں اسلام آباد کے بچوں کا پسندیدہ ہاتھی سہیلی چل بسا ۔اس کے بعد کیوان ہاتھی بھی بیمار ہوگیا اور اس کے لئے سوشل میڈیا پر سیو کیوان مہم چلی۔اس ہی طرح انتظامیہ کی لاپروائی جانوروں کو نگلنے لگئ۔حالیہ چند سالوں میں شترمرغ، نیل گائے،ہرن،بندر،شیر کے چار بچے اور متعدد پرندے زو میں اپنی جان سے گئے۔وہ چڑیا گھر جہاں ہمارے بچپن میں صفائی کا بہترین انتظام ہوتا تھا وہاں اب گندگی کا راج ہے اور جانور بیمار ،لاغر اور اداس نظر آتے ہیں ۔چڑیا گھر کو تزئین و آرائش، پینٹ صاف پانی،پنکھوں،روم کولرز اور نئے پنجروں کی اشد ضرورت ہے۔

ایک مدت کے بعد جب میں اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لئے چڑیا گھر گی تو یہ دیکھ کر دل کو بہت تکلیف ہوئی کہ بچوں کے لئے تفریح کا سامان کرتے کرتے یہ جانور خود جینا بھول گئے ہیں ۔ہر طرف ایک عجیب سی اداسی تھی جیسے سب جانوروں شکوہ کناں ہو کہ ہمیں اس عقوبت خانے میں کیوں رکھا ہے۔بطخیں کم اور گندے سے پانی میں تیر رہی تھی تو دوسری طرف ہاتھی ایک گندے سے کمرے میں جس میں پینٹ اتر چکا ہے فنگس لگی ہے گم سم سا کھڑا جھوم رہا تھا۔ہاتھی کے پنجرے کی باڑ جگہ جگہ سے ٹوٹ گئ ہے۔زیبرا کے پنجرے درمیان میں کیچڑ ہوا تھا اور ہرن نیل گائے کی رہائش کی جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔سب سے زیادہ افسوس ریچھ کے گھر کو دیکھ کر ہوا شاید ہی وہاں کبھی صفائی یا پینٹ ہوا ہو اور ہر جگہ کائی لگئ ہوئی تھی ۔گندا مندا ریچھ کبھی اپنے کمرے سے باہر جھانکتا تو کبھی واپس اندر چلا جاتا۔را طوطے اور گانی والے طوطے تو شاید اس اداسی کے ماحول میں بولنا ہی بھول گئے ہیں ۔سفید طوطے کا جوڑا اپنے خستہ سے پنجرے پر بیٹھا شاید اس بھوت بنگلے سے نکلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔شیر کہیں خلا میں گھور رہے تھے اور چڑیا گھر ان کی دھاڑ سے محروم تھا۔مور کے پنجروں میں جابجا بل تھے شاید نیولے اور سانپ ان پر دعوت اڑاتے ہوگے۔چوہے ان کے پنجروں میں گھوم رہے تھے ۔رہی سہی کسر سیاح بھی پوری کردیتے ہیں جو کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں ۔اکثر کی کوشش ہوتی ہے کہ جانوروں کو چپس کھلائے جائیں جوکہ انتہائی غیر مناسب حرکت ہے۔جانوروں کو انسانی خوارک دینا مضر صحت ہے۔

فوٹوگرافی میں میری معاونت کرنے والے پاکستان کے سنیئر فوٹو گرافر میاں خورشید نے کہا کہ یہاں پر خوارک کی کمی ہے شیر اور دیگر گوشت خور جانوروں کو مرغی کا گوشت دیا جا رہا ہے جوکہ ان کے لئے ٹھیک نہیں،  ان کی خوارک سے بدبو بھی آرہی ہے۔دوسرے جانوروں کو بھی خوارک کی کمی ہے اور ان کے رہنے کی جگہ گندگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ہاتھی کے لئے پانی کی کمی ہے ،ایک چھوٹے پائپ سے اس کو پانی مل رہا ہے اور اسکو گنے کے بجائے پٹھے دئے جارہے ہیں ۔پنجروں میں گندگی ہے صفائی کا انتظام نہیں ۔جانوروں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔

میں جیسے جیسے چڑیا گھر دیکھتی رہتی دل مزید اداس ہوتا گیا شہر اقتدار کے قلب میں بنے اس چڑیا گھر عرف عقوبت خانے میں ہونے والا ظلم کسی کو کیوں نظر نہیں آرہے  ۔جانور سہولیات کی کمی کا شکار ہیں، ان کے پنجرے خستہ ہیں، انکی خوارک مناسب نہیں ۔جانوروں اور پرندوں کو سردی اور گرمی کی شدت سے بچانے کا مناسب انتظام نہیں ۔چڑیا گھرملازمین میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی ہے۔گزشتہ ماہ وزیر زرتاج گل نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ چڑیا گھر کا انتظام وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کردیا جائے تاکہ جانوروں کی صحیح دیکھ بھال ہو ۔

میں یہاں پر یہ کہو گی کہ اگر حکومت کے پاس فنڈ نہیں اور سی ڈی اے جیسا امیر ادارہ ان کی دیکھ بھال سے قاصر ہے تو ان جانوروں کو باہر کے ممالک میں قائم سفاری اور چڑیا گھر کے حوالے کردیا جایا



متعللقہ خبریں