تجزیہ 05 (کیا عالمی اقداراپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں؟)

یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا عالمی اقدار کے حوالے سے جائزہ

1136006
تجزیہ 05 (کیا عالمی اقداراپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں؟)

گزشتہ ہفتے ہم نے  اقدار کی دھجیاں اڑنے، اصولوں، بڑائی ، فضلیت ، بھائی چارے اور انصاف کے نظریات کے تقریباً فراموش کیے جانے والے ایک دور میں داخل ہونے  کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پیش رفت کو "اقدار کے خاتمے" کے نام سے منسوب کیا جانا موزوں ہو گا۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ دنیا پر  ایک طائرانہ نگاہ  ڈالنے سے اس   کے اقدار کے حوالے سے کس قدر متاثر ہونے کا آپ کو فوراً اندازہ ہو جائیگا۔ اقدار  کے اعتبار سے  اقوام متحدہ اور یورپی یونین   میں زوال پذیری کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔  تو آئیے اسی سلسلے کو بحال کرتے ہیں جہاں  سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔

انقرہ یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا مندرجہ بالا موضوع کے حوالے سے جائزہ۔۔۔۔

امریکہ

زیادہ دور کی بات نہیں ، کل تک  امریکہ "امریکن ڈریم " کے نام سے یاد کیا جانے والا ایک ملک تھا۔ امریکی طرز پر زندگی بسر کرنا تقریباً ہر ملک میں فیش تصور کیا جاتا تھا۔ اگر آج پبلک سروے کرایا جائے تو  اس بات کا پتہ چلے گا کہ امریکہ کا تاثر تمام تر ممالک میں اپنی تاریخ کی بد ترین سطح پر  ہے۔

اس وقت  لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے محض 6 ہزار پناہ گزینوں  کو کئی مہینوں سے امریکی سرحدوں پر انتظار کرایا جا رہا  ہے۔  جب ترکی، لبنان اور اُردن کی طرح کے ممالک محض ایک رات میں اس تعداد سے  کہیں زیادہ بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے ہیں تو دنیا  کا سرِ فہرست ملک امریکہ ،  موجودہ ایام میں شاید دنیا  بھر میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو انتظار کرانے والا ایک  ملک ہے۔ اس سے  بھی کہیں بُری چیز دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک  کے یورپ میں گرائی جانےو الی دیوارِ برلن  کی طرح اپنی سرحدوں  پر  دیواریں کھڑی کرنا مہاجرین کے خلاف فوج کو استعمال کرنے  سے ہٹ کر کوئی دوسرا  حل چار ہ نہیں ہے۔ ایسا  ہے کہ اس کی تعمیر پر خرچ کی جانے والی رقوم کو اگر مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیےبروئے کار لایا جائے تو شاید  اس کی مالیت اس سے بھی کم ہو گی۔

موجودہ امریکی انتظامیہ اپنی طاقت کو کھونے کے خدشات کی بنا پر ، بالکل کوئی ضرورت نہ ہونے  اور محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر"دی امریکہ  فرسٹ"، "امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ" کی طرح کے  بیانات کو پیش کرتے ہوئے تمام تر  عالمی سطح کے معاہدوں سے  دستبردار  ہو رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے  کا مقصد  رکھنے والے   پیرس موسمی معاہدے ، اقوام  متحدہ کے  ادارے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کرنے کے  امریکی فیصلوں کا  گہرے خدشات کے ساتھ تعاقب  کیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حال ہی میں اجلاس میں کہا تھا کہ"جہاں شمولیت کے نظریے  کے خلاف ہیں"   زیادہ دور کی بات نہیں  چند برس قبل تک ایسا جملہ   کسی پسماندہ    ملک کے لیڈر یا پھر  ماہر ِنظریات کی جانب سے ہی زیر لب لایا جاتا تھا۔ ایک امریکی صدر کی جانب سے  اس قسم کا بیان کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

عصرحاضر میں امریکہ سمیت مغربی ممالک کی صورتحال، ڈیموکریسی، حقوقِ انسانی، آزادی کی طرح کی اقدار کا دفاع کرنے کی مانند دکھائی دینے والے تا ہم  اپنے لیے سود مند نہ ہونے  کی صورت میں انجیل کی آیات کی بھی مختلف طریقے سے تشریح کرنے والی مغربی تہذیب  کے ماضی سے مختلف نہیں  ہے۔

عوامی جمہوریہ چین ۔ روس

چین اور روس گزشتہ ایک صدی کے  معیار کا سنگ بنیاد رکھنے والے اور مشترکہ کائناتی اقدار کی تخلیق دینے والے ممالک کی صف  میں شامل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین سرعت سے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں بھی شامل ہے۔ یہ دونوں مملکتیں عالمی پالیسیوں میں  اپنا اثرِ رسوخ رکھنے والی دو مملکتیں ہیں۔

یہ ممالک  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کے مالک ہیں۔ ان ملکوں میں جمہوریت کا فقدان ہے اس بنا پر داخلی پالیسیوں کے پرعملدرآمد کے حوالے سے  بیرونی دنیا کو زیادہ تر آگاہی حاصل نہیں ہے۔ روسی صدر پوتن کی مخالف سربراہان پر پابندیاں نکتہ چینی کا باعث ہیں۔ دوسری جانب چین  میں جیسا کہ عالمی میڈیا کی رائے  ہے کہ مشرقی ترکستان میں خوفناک حد تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور  جبری یکسانیت کی پالیسیاں کس حد تک حقائق کی عکاسی کرتی ہیں کا صحیح طور پر اندازہ کرنا نا ممکن ہے چونکہ چین کی داخلی  پالیسیاں واضح اور عیاں نہیں ہیں۔

مسلم اُمہ

مسلم ممالک کو  بھی عالمی سطح پر   چند صدیوں کے دوران معیار پیش نہ کرنے والے اور کائناتی اقدار پیدا نہ کرنے والے ممالک کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔  یہ چاہے اپنے آپ کو سیکولر،  بادشاہی، شریعتی مملکت  یا پھر چاہے کسی بھی شکل میں  بیان کیوں نہ کریں یہ ممالک بھی جمہوری،  حاکمانہ اور  مطلق العنانی  طرز ِ  حکومت میں سے کسی ایک حامل ہیں۔

خاصکر جب مشرق وسطی پر نگاہ دوڑائیں تو  اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ملکی انتظامیہ عوام کی رضا مندی کی بالکل ضرورت تک محسوس نہیں کرتی۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کو  اپنے عوام سے نہیں بلکہ اہم پیمانے پر عالمی اداکاروں  کے بل بوتے حاصل کرتے ہیں۔ عالمی اداکار بھی اس صورتحال کا بلا تردد   اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ حکمران چاہے واحدانہ طور پر ذمہ دار نہ بھی ہوں  تو بھی موجودہ حالات میں مشرقِ وسطی کے بعض ممالک   کٹھن  ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام اپنی جانیں داؤ پر لگاتے اپنے اپنے وطنوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے درپے ہیں۔

مشرق وسطی کے ممالک کی اکثریت  ، اقدار اور اخلاقی  امتیاز کو ایک طرف چھوڑیں ،  یہ تمام تر اقدار کو اپنے عوام کے خلاف محض اپنی کرسی  کے نام پر ملیہ میٹ کرنے اور کسی بھی قیمت  پر  نہ چھوڑنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔

روشن خیال سوچ کاخاتمہ:فرینکسٹائن سے آڑٹیفیشل  انٹیلیجنس

برطانوی خاتون مصنف میری شیلے  کی سن 1818 میں محض 19  برس کی عمر میں تحریر کردہ "فرینکسٹائن"  فن پارہ ایک رومان  ہونے سے  ہٹ کر روایتی، مذہبی اور  بیچ کے اداروں سے کٹی  ہوئی،  روشن خیالی، سیکولرزم اور  مثبت سوچ کے  بانیوں کی عقلیت پسندی  کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مبنی  کسی رجحان  کے حاصل کرسکنے والے  ایک نتیجے کی نگاہ سے  دیکھا جا سکتا ہے۔

آج بھی یہی  روشن خیال سوچ،  مصنوعی ذہانت  کے حامل انسانوں کے وجود کو قیام میں لانے کی کوششوں میں ہے۔ کسی  بھی قدر اور اخلاقی امیتاز کو تسلیم نہ کرنے والی ،  نام نہاد روشن خیالی سے سرشار عقل و سوچ کے پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران   بنی نو انسانوں اور کرہ ارض فلاکت کی جانب دھکیلنے کا مشاہدہ پوری دنیا نے کیا تھا۔ تمام تر اقدار سے عاری، محض مشینی طاقت اور ترقی  پر مبنی،  حیاتیاتی انسانوں سے ہٹ کر  کہیں زیادہ طاقتور اور  ان کو بھی اپنے کنٹرول میں لے سکنے والی، مصنوعی ذہانت کی حامل "انسانی  اقدار" کرہ ارض کو کس جانب دھکیلے گی؟   ہم اپنی دنیا کا انجام اپنے ہاتھوں سے ہی لیکر آئیں گے۔

لذت پسند انسان

روشن خیالی، سیکولرازم،  خبر رسانی و انفارمیشن ٹیکنالوجی میں  ترقی،  امیدوں سے وابستہ آئیڈیالوجی،  مذہب اور اداروں کا رفتہ رفتہ  انسانی  امیدوں سے  دور ہٹنا،  انسانوں کو کہیں زیادہ لذت  وراحت کی  جانب دھکیل رہا ہے۔ اس ماحول   میں رچنے بسنے والوں کی ایک کثیر تعداد نوجوان طبقے پر مشتمل ہے۔  اپنے کنبے، دوست و احباب، اسکول، گرد و نواح، کاروباری دنیا، قدرت،  جانوروں اور دیگر جانداروں کے ساتھ محض  مسرور ی کا تعلق قائم کرنے والے  انسانوں کے موجب بننے والے  ناگہانی واقعات  ابھی سے قدرے خوفناک ہیں۔ کسی قسم  کی قدر و قیمت سے عاری  محض سرور و راحت  کا دامن تھامنے والی  شخصیت کا روپ دھارنے  پر   یہ لوگ غیرانسانی خصوصیات کی حامل مخلوق  کی ماہیت اختیار کر جائینگے۔

یہاں تک  کی باتوں سے  یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اساسی و  بنیادی طور پر ریاستوں اور اداروں کی طرح کے منظم ڈھانچے اپنی اقدار کھونے کے دہانے پر آن کھڑے ہیں۔  اوپر  اشارہ کردہ نا مساعد صورتحال  پیدا ہو تو بھی بعض لوگوں کے ،  بعض اہم شخصیات،  عظیم نظریات ، بین الااقوامی ادارے یا پھر  مملکتوں کی چھت تلے نہیں بلکہ ان  سے ہٹ کر  خود مختار طور پر   کہیں زیادہ  اقدار و اخلاقی امیتاز  کے خدشات ر کھنے کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔   جی ہاں غیر منظم افراد  کہیں زیادہ اقدار اپنی شخصیت میں بسا سکتے  ہیں۔  کہیں زیادہ اقدار کا مالک بننے کی استعداد کے اعتبار سے  ہم غیر منظم ڈھانچوں سے  کہیں زیادہ پُر امید   بن سکتے ہیں۔ اس  کے ساتھ ساتھ    کرہ ارض کے زیادہ  تر منظم ڈھانچوں  کی جانب سے کسی خاص شکل میں ڈھالے جانے سے آگاہی رکھنا ، ہمیں کہیں زیادہ امیدیں وابستہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔

اگر ہم انسانوں سے تعلق ہونے کی بنا پر مل جل کر تدابیر اختیار کرتے ہوئے "اقدار کے خاتمے" سلسلے کا سد ِ باب  کرنے والی کسی راہ کو تلاش  نہ کر پائے  تو پھر مل جل کر تیار کردہ  درد ناک   انجام  ہمارا مقدر بن جائیگا۔



متعللقہ خبریں