عالمی نقطہ نظر36

مسلمانان ہند کا پس منظر

1043769
عالمی نقطہ نظر36

 

Küresel Perspektif  / 36

HİNDİSTAN MÜSLÜMANLARI

 

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

بر صغیر   میں اسلام   کی آمد حضرت عمر کے دور سے اور تین مختلف راستوں سے  ہوئی  تھی ۔ اس بات کا اظہار صدائے ترکی  کے پروگرام چشم جہاں  میں  بطور مہمان  نئی دہلی میں واقع مشرق   تحقیقاتی مرکز کے  ڈاریکٹر  اور انقرہ  یلدرم بایزید یونیورسٹی   کے  اعزازی پروفیسر  ڈاکٹر عمیر  انس نے  کیا ۔

ان کا کہنا  تھا کہ  بر صغیر  میں  مسلمان انڈونیشیا کی طرز پر بطور تاجر وارد ہوئے جنہوں نے  سودے بازی میں    انصاف   کے تقاضوں کی  بھرپور نمائش کرتےہوئے مقامی آبادی کے دل جیت لیے ،دوسری جانب سے  وسطی ایشیائی ریاستوں  سے آنے والے صوفیوں کے طرز عمل اور  مشفق برتاو کی بدولت  مقامی  لوگ با مشرف اسلام  ہوئے ۔صوفیائے کرام   کی عقیدت مولانا رومی سے نسبت تھی ۔  اب بھی  ترکی کا دورہ  کرنے والے صوفیائے کرام  قونیہ  جا کر مولانا رومی کے مزار پر حاضری ضرور دیتےہیں۔ ان صوفیائے کرام    کی رومی سے  یہ عقیدت دراصل  ان کی خراسان  اور بلخ جیسے افغان شہروں سے   وابستگی تھی  جو کہ ہندوستان کے قریب واقع ہے ۔

آمد کا تیسرا  راستہ  مسلم طرز  حکمرانی تھا جس کی داغ بیل ترک نژاد مغلیہ سلطنت   کی آمد سے  پڑی ۔ کیونکہ اسلامی طرز حکمرانی میں  بلا تفریق عوام کی خدمت اور   رحمدلی  اولین ترجیح  کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے ہندوستان میں  آکر بھی اسی روش کا اپنائے رکھا اور مقامی آبادی سے گھل مل گئے۔

بر صغیر میں نامی گرامی اولیاے کرام بھی گزرے ہیں جن میں  امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ  دہلوی      سمیت  ابو الحسن الندوی کے نام قابل ذکر ہیں

برطانوی سامراج  کے بعد بر صغیر  میں اسلام کی تبلیغ  نہ ہونے کے برابر  رہ گئی   جس کا نتیجہ  بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش     کی آزادی کی صورت میں  سامنے  آیا ۔

 بھارت  میں اس وقت  تقریباً 20 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں جو کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ ہے ۔ بھارت کی  آبادی اس وقت 130 کروڑ ہے  کہ جہاں  اس مسلمانوں کی حالت زار  دگر گوں ہے اور انہیں مقامی  انتظامیہ کے جبر و ستم کا سامنا ہے۔

بر صغیر میں مسلمانوں کی آمد کا آغاز ترک نژاد محمود غزنی سے ہوا  جس کے بعد  چغتائی  ترک النسل  ظہیہر الدین بابر نے   وہاں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی  جسے اس کے بیٹے جہانگیر نے مزید وسعت دی ۔ اس مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر تھا     جس کی  یہ  عظیم سلطنت  سن 1857 میں  انگریزوں کے ہاتھوں شکست سے ختم ہوئی ۔

مغلیہ تاجداروں  کے سلطنت عثمانیہ سے تعلقات بہترین تھے جو کہ دونوں خاندانوں کے درمیان   ازدواجی تعلقات سے مزید پختہ ہو ئے۔

 آج کے بھارت میں 18 سرکاری زبانیں، 22 ریاستیں اور 400 کے قریب مقامی زبانیں رائج ہیں   یہی وجہ ہے کہ  بھارت   دنیا میں  تہذیبوں کے   مختلف رنگوں کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ بلا شبہ اس تہذیب میں مغلیہ حکمرانوں کا  کافی عمل دخل رہا ہے  کیونکہ ان کے طرز حکمرانی میں   عوام  کی شخصی  ،لسانی ،ثقافتی اور معاشرتی آزادی کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا ۔ یہی طرز حکمرانی  اندلس میں عربوں  کا اور  عثمانیوں کا  اناطولیہ اور وسطی یورپ میں تھا ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل  عرصے مسلمانوں کے زیر تسلط رہنے  کے باوجود بھی  بلقان  میں  ترکی زبان اور اندلس میں  عربی زبان    کسے واقفیت نہ ہونےک ے برابر ہے لیکن  برصغیر  پر برطانوی حکمرانی  کے نتیجے میں انگریزی زبان کو آج بھی  سرکاری حیثیت حاصل ہے ۔امریکہ کا جہاں تک تعلق ہے  تو وہاں   کی  مقامی آبادی  کی لسانی و معاشرتی آزادی کو تو رہنے دیجیئے  جن کی  نسلی باقیات  کو اس وقت کسی ناپید پرندوں کی طرح تحفظ دیا جا ر ہا ہے۔

 اس صورت حال پر ایک  سوال ذہن میں کچھ  یوں اٹھتا ہے  کہ اگر برطانوی   18 ویں کے بجائے 14 ویں صدی میں امریکہ کی طرح ہندوستان میں آتے تو صورت حال کیا ہوتی؟ خیال ہے کہ  بر صغیر    میں بھی امریکہ کی طرز پر سفید فام  کی زبان اور اس کے مذہب   کو جبراً مسلط کر دیا جاتا اور مقامی ثقافت  اور زبانوں کا  وجود ہی ختم ہوجا تا ۔ اگر صورت حال اس کے بر عکس یہ ہوتی کہ مسلمان امریکہ دریافت کرتے  تو قوی امکان ہوتا کہ وہ  وہاں کے مقامی مایا  ،انکا  اور آستک جیسے قبیلوں کو  مکمل شخصی  آزادی دینے سمیت ان کے ثقافتی پس منظر میں زندگی گزارنے کا  بھرپور موقع  فراہم کرتے۔

 برطانوی  تسلط کے بعد  بر صغیر میں مغربی ثقافت ہی نہیں   پروان چڑھی بلکہ    یہ علاقہ تین ملکوں  بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش  میں تبدیل ہو گیا  جو کہ"   تقسیم اور اقتدار" کے برطانوی اصول کی ترجمانی کرتا ہے۔

 جنگ عظیم اول   کے دوران  برطانویوں   نے جب   عثمانی علاقوں پر حملے کیے   تو اس کی مخالفت میں  مسلمانان ہند پیش پیش رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ  اگر  عثمانی بھی ہماری طرح  زیر تسلط آ گئے تو یہ مسلم اُمہ کےلیے ایک بڑی تباہی  ہوگی ۔  خلافت عثمانیہ کی مدد کےلیے بالخصوص محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی  کی زیر حمایت   تحریک خلافت  شروع کی گئی  اور  عثمانیوں       کےلیے مسلمانان ہند  نے مالی امداد جمع کرنا شروع  کردی ۔

 تاریخ کے انہی واقعات کے تناظر میں  ترک قوم اور حکومت  پاکستانی عوام اور حکومت سے قریبی  اور برادرانہ تعلقات قائم کیے ہوئے ہے  اور یہ جذبہ  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

 یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے شعبی سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 

 

 

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں