عالمی نقطہ نظر03

مذہبی رواداری کا علمبردار شہر "القدس" Prof DR.Küdret Bülbül - KUDÜS DÜŞERSE

890523
عالمی نقطہ نظر03

القدس ،مسلمانوں ،مسیحیوں اور یہودیوں کےلیے ایک مقدس شہر ،مسلمانوں کےلیے ویسے ہی یہ شہر قبلہ اول کی حیثیت رکھتا ہے جہاں  سرور کائنات  نے  شب معراج کے موقع پر سات آسمانوں کی  زیارت کی اور  خدائے بزرگ و برتر  کا بھی رو برو دیدار کیا ۔

 عثمانی خلیفہ  یاووز سلطان سلیم     نے اس شہر کو  سن 1516 میں فتح کیا جس ے بعد  سن 1901 تک تقریباً  401 سال یہ خلافت عثمانیہ کے زیر  تسلط رہا  جس کے تحت وہاں امن و آشتی اور مذہبی روداری    کا دور دورہ رہا ۔

یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم  کے پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل  کے قلم سے پیش کر رہے ہیں۔

 واضح رہے کہ گزشتہ دنوں  امریکہ نے  اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کےلیے  القدس کو یک طرفہ طور پر اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دے دیا  جس  پر  عالمی برادری  نے ایک محاذ کھڑا کر دیا  اور یک آواز ہو کر امریکہ کی تمام تر گھٹیا دھمکیوں کے باوجود   اس  کی شدید مخالفت کی ۔ سلامتی کونسل میں اس امریکی فیصلے کے خلاف  15 میں سے 14 ارکان نے   ووٹ دیا  جبکہ جنرل اسمبلی  میں صرف 8 امریکی پٹھو ممالک  نے اس فیصلے کی حمایت  جبکہ  یورپی یونین ،افریقہ،لاطینی   و   مشرق بعید ممالک  اور اقوا م مسلمہ نے   خلاف توقع اس  مخالفت میں ساتھ دیا ۔

اس واقعے کے بعد پوری دنیا حتی امریکہ اور اسرائیل میں بھی  عوام نے بھرپور مظاہرے کیے ۔

اس سلسلے میں  اسلامی تعاون تنظیم    کی کوششیں قابل ستائش  رہیں  جس کی قیادت   ترک صد ر  کر رہے ہیں۔ صدر ایرودان نے اس فیصلے کو ختم کروانے کےلیے  روسی صدر پوٹین،پاپائے روم  اور دیگر اعلی حکام سے فوری طور پر رابطے کیے   جن کا  انہیں مثبت جواب ملا ۔

 اس فیصلے کی مخالفت سے  یہ  واضح  ہو گیا  ہے  کہ  مسئلہ فلسطین پر  دنیا کا نظریہ بدلنے میں مدد ملے گی  حتی   اس دہکتی آگ   کو بجھانے اور  خطے کی عوام  کی مشکلات دور کرنے میں  معاونت حاصل ہوگی ۔

اس امریکہ فیصلے سے ایک بات تو  ثابت ہوئی کہ بعض اوقات شر پسند ممالک   کے منہ سے بھی مسلمانوں بالخصوص انسانی اقدار کی حمایت  میں  ہاں   نکلی۔ سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان نے متنبہ کیا تھا کہ  اگر اسرائیل کو   نکیل نہ ڈالی گئی تو یہ ملک  ارض الموت   کے قیام کےلیے  دجلہ و فرات تک   کی زمین اپنے قبضے میں لینے کےلیے ہر جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

اس منصوبے  کی مخالفت میں    بعض   اعتدال پسند یہودیوں  کا نظریہ  قابل توجہ ہے جنہیں  یہ شعور ہے کہ ہٹلر کے نازی ازم    اعلی نسل  پرستی  کی ہوس کے  نقصانات   کیا ہوئے اور اس کا نتیجہ کیا  نکلا۔

 یورپ اور عالم اسلام کا یک آواز ہونا   اہل مغرب  میں اسلام دشمنی  اور نفرت کے جذبات  میں کمی لانے  کےلیے فائدہ مند ثابت  ہو سکے گا۔

 بالفرض  اس امریکی فیصلے کے خلاف اگر  دنیا  متحد نہ ہوتی  تو اس کے نتیجے میں   باطل کی جیت اور حق کی ہار ہوتی  اور اور مظلوم کی پکار طاقت کے نشے میں چور سامراجی طاقتوں کی آواز میں دب جاتی  اور مشرق وسطی کا مستقبل ہمیشہ کےلیے تاریک ہو جاتا ۔

 اب دنیا  کے سامنے    یہ واضح ہے کہ وہ صرف اس فیصلے پر اکتفا نہ کرتےہوئے  آگے بڑھے  کیونکہ اگر القدس تسخیر ہوا تو  سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا اور  خطرہ ہے  کہ نازی ازم   کی روح دوبارہ زندہ ہو جائے گی ۔

یہ بات طےہو گئی ہے کہ القدس صرف مسلمانوں،مسیحیوں اور یہودیوں کا نہیں ایک  انسانی مسئلہ ہے   جس میں ضمیر کی آواز سننا انتہائی ضروری ہے ۔

انقرہ کی یلدرم با یزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل کا جائزہ آپ نے سنا ۔

Prof. Dr. Kudret Ankara Yıldırım Beyazıt Üniversitesi Siyasal Bilimler Fakültesi Dekanıdır

 

 

 

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں