قدم بہ قدم پاکستان - 33

آئیے! آج آپ کو نمل جھیل میانوالی کی سیر کرواتے ہیں

796155
قدم بہ قدم پاکستان  - 33

آئیے! آج آپ کو نمل جھیل میانوالی کی سیر کرواتے ہیں۔

میانوالی شہر سے اندازاً تیس کلو میٹر دور پہاڑیوں کے دامن میں ایک بہت ہی خوبصورت جھیل ہے جسے نمل جھیل کہا جاتا ہے۔ یہ جھیل سیاحوں کے لئے کشش اور دلچسپی کا سامان لئے ہوئے ہے۔ جھیل کو دیکھنے والے اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ علاقہ جو وادی نمل کے نام سے مشہور ہے۔ کئی صدیوں سے آباد ہے جس کا ثبوت جھیل کے کنارے واقع قدیم قبرستان ہے۔یہاں کے بارے میں ایک دلچسپ روایت مشہور ہے کہ انگریز دور سے قبل جب پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی تو اس علاقے کا حکمران راجہ سرکپ ہوا کرتا تھا۔ جو اپنی عیاشی اور ظلم و ستم کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے پہاڑیوں پر اپنی ایک وسیع حویلی بنا رکھی تھی۔ جہاں وہ جواءکھیلا کرتا تھا۔ اس نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو کوئی اسے شکست دے گا وہ اسے اس علاقے کا حکمران بنا دے گا لیکن جو ہارے گا وہ اس کا سر قلم کروا دے گا۔ اس طرح اس نے ہارنے والے سینکڑوں افراد کے سر قلم کروائے۔ آخر سیالکوٹ کے راجہ نے اسے شکست دے دی جس پر راجہ سرکپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اس سے کر دی اور اسے تمام علاقے کی حکمرانی سونپ دی۔

نمل جھیل 1913ءمیں انگریزوں کے دور میں بنائی گئی تھی۔ یہاں کی زمین سرسبز اور زرخیز تھی۔ لوگ یہاں کاشتکاری کرتے تھے۔ تب اس علاقے میں سو کے قریب کنویں موجود تھے۔ نمل جھیل بارہ سو ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی وسیع و عریض جھیل ہے جس کی گہرائی بیس فٹ ہے۔ برساتی نالے اور پہاڑوں سے چشموں کے ذریعے آنے والا پانی اس جھیل میں جمع ہوتا ہے۔ یہ پانی میانوالی شہر اور ملحقہ دیہات کو سیراب کرتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا ڈیم بھی بنایا گیا ہے۔ جب جھیل کا پانی ڈیم کے آہنی دروازوں سے ہوتا ہوا دوسری طرف آبشار کی طرح گرتا ہے تو خوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے۔

جھیل کے کنارے ایک بزرگ حضرت حافظ جی کا مزار ہے۔ 6 اور 7 شعبان کو عرس ہوتا ہے جس میں قرب و جوارکے لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ سالانہ عرس کے علاوہ سات اورآٹھ محرم کو بھی لوگوں کی بڑی تعداد یہاں حاضری دیتی ہے۔ اس موقع پر یہاں عارضی دکانیں بن جاتی ہیں اور یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی ہے۔ 1984ءسے مسجد اور مزار کا انتظام محکمہ اوقاف کے سپرد ہے۔

نمل جھیل کے قریب ایک ریسٹ ہاﺅس بھی سیاحوں اور خاص مہمانوں کے لئے موجود ہے۔ یہاں سے جھیل کے دلکش منظر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف کی آبادی نمل گاﺅں سے موسوم ہے۔ یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے جھیل کو عبورکرتے ہیں۔ جھیل میں ایک فش فارم بھی بنایا گیا ہے اس کا انتظام ضلع کونسل میانوالی کے پاس ہے۔ یہاں مچھلیوں کی بڑی تعداد ہے۔ فش فارم باقاعدہ ٹھیکے پر دیا جاتا ہے۔ تفریح کے لئے آنے والے یہاں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور بعض سیاح وہیں پر اپنی شکار کی ہوئی مچھلیوں کو پکا کر پکنک کا مزہ دوبالا کرتے ہیں۔

مچھلیوں کے علاوہ یہاں مرغابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہفت روزہ ”پاک جمہوریت“ میں ایس انور خان اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان اور دیگر اعلیٰ شخصیات بھی یہاں شکار کرنے اور تفریح کی غرض سے آتی رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میانوالی‘ خوشاب‘ تلہ گنگ‘ چکوال اور دیگر ملحقہ شہروں اور سیاحوں کے لئے یہ جھیل ایک خوبصورت اور بے مثال تفریحی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔ ہفتہ وار تعطیل اور دیگر تہواروں کے موقع پر لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تفریح اور ان قدرتی حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ میانوالی اور اس سے ملحقہ بارانی علاقوں کے خشک اور بے مزہ ماحول میں رہنے والوں کے لئے نمل جھیل سے بہتر کوئی تفریحی مقام نہیں ہے۔

مشہور پاکستانی کرکٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نیازی جن کا تعلق میانوالی سے ہے انہوں نے یہاں نمل یونیورسٹی قائم کی ہے جس سے اس علاقے کی اہمیت اور شہرت میں اضافہ ہوا ہے۔ نمل جھیل تفریح اور مچھلی و مرغابی کے شکار کے لئے بہترین اور پُرکشش مقام ہے۔

آئندہ ہفتے تک کے لیے اپنے میزبان کو اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ۔

٭٭٭٭٭

 



متعللقہ خبریں