حالات کے آئینے میں 34

شمالی یورپ اور خطہ بلقان میں امریکی اسلحہ اندوزی سے پیدا ہونے والے بحران پر ایک جائزہ

794635
حالات کے آئینے میں 34

جب امریکی صدر باراک اوباما   کے عہدِ صدارت  کے خاتمے میں  چند ماہ ہی بچے تھے  تو اسوقت  شمالی یورپ اور خطہ بلقان کے مغربی علاقوں  میں   انتہائی    غیر متوقع  سیاسی  و فوجی  بحران  ظہور پذیر ہوئے تھے۔

یلدرم بیاضت  یونیورسٹی کے شعبہ  تاریخ  کے  لیکچرار ایردال شمشیک  کا اس موضوع پر جائزہ   ۔۔۔۔۔

 اچانک یہ خبریں سامنے آئیں کہ  روسی جنگی یا پھر  عسکری گشتی  طیاروں نے نیٹو کے رکن شمالی یورپی  ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔  ان خبروں کے بعد امریکہ  اور نیٹو  نے سخت گیر ڈپلومیسی پیغامات جاری کیے۔  اس کے قلیل   عرصے  بعد ہی   ریاست ہائے متحدہ  نے  یورپ کو اسلحہ کی ترسیل کا معاملہ  زیرِ بحث لایا۔

ابھی   اس معاملے پر بحث جاری تھی  تو روسی جیٹ طیاروں کی اب کی بار  مشرقی یورپ اور بلقانی علاقے میں   نیٹو اور یورپی یونین  کے رکن ممالک کی مشترکہ فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کرنے کی خبریں  عالمی خبر ایجنسیوں کی جانب سے منظر  ِ عام پر آئیں۔ تا ہم بعض ایجنسیوں  کے ماضی میں  اس قسم کی قیاس آرائیوں پر  مبنی خبری جاری کرنے کی بنا پر   ان  پر زیادہ اعتبار  نہ کیا گیا۔   لیکن  اسی  دوران دنیا کی  با اعتماد ترین  خبر ایجنسیوں میں    نمایاں مقام کی حامل انادولو ایجنسی  نے  بھی انہی خبروں کو زیادہ  جامع طور پر   اپنے قارئین  تک پہنچایا۔

انادولو ایجنسی  کی ان خبروں کے بعد  بلقانی خطے کے دوبارہ   اسلحہ  کا گودام بننے  اور جنگو ں و بین الاقوامی تعلقات   کے حوالے سے  سر گرم  عمل  ہم  اخباری نمائندوں نے   ذرائع ابلاغ سمیت  گروپ  میلز میں  سنجیدہ   طور پر اس معاملے  پر بحث  کی۔  جس کے نتیجے میں  بلقان اور مشرقی یورپ کو دوبارہ اسلحہ  کے گودام  کی   حیثیت  دیے جانے کے  نظریے نے  جنم  لیا۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے 25 سالہ جنگوں اور بین  الاقوامی  معاملات پر صحافت کے تجربے  نے   ہمیں حق بحانب  ٹہرایا ۔  متحدہ  امریکہ نے مشرقی   یورپ  میں  ہزاروں ٹن ہتھیار، فوجی سازو سامان  اور جنگی   طیاروں و ہیلی کاپٹروں  کا انبار لگا دیا۔

اس عمل کے فورا ً  بعد روسی  طیاروں کی  فرانس اور برطانیہ   کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے  کی خبریں  شائع ہوئیں، جس پر برطانیہ نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی فضائی و بحری فوجوں کو "اس چیزکا سدِ باب  کرنے کی تدابیر اختیار" کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ کئی مہینوں سے  برطانوی فضائیہ اور بحریہ ملک کی بحری   و فضائی  حدود کا تحفظ کرنے  میں چاق و چوبند ہیں۔

دنیا ان واقعات   کے حوالے سے پیش رفت  کا جائزہ لے رہی تھی تو امریکی جنگی  بحری جہازوں کے چین کے پانیوں، چینی جنگی  بحری جہازوں کے  جاپانی  پانیوں  جبکہ جاپانی  بحری  جہازوں کے چینی اور روسی  سمندری حدود کی خلاف ورزیاں کرنے  کی خبریں سامنے  آنے لگیں۔مذکورہ ملکوں  نے جدید ترین اسلحہ سے لیس  جنگی  بحری جہازوں کو بحیرہ  چین، جاپان اور پیسیفک    میں کھڑا کر دیا۔ روس نے چین  اور جاپان کے ساتھ اپنے مشترکہ پانیوں  کی حدود کو تحفظ میں لینے   کے زیر مقصد بعض تدابیر اختیار کیں۔

انہی ایام میں  روسی لڑاکا طیاروں نے ترکی سمیت بحیرہ اسود کے کناروں پر واقع ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی۔   روس  کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والے ان  تمام ممالک کا   نیٹو  کا رکن اور بیک وقت امریکہ کا اتحادی  ہونا توجہ  طلب تھا۔

روس کے بحیرہ اسود میں ان اقدامات کے خلاف  مقابل  امریکہ نے بحیرہ اسود میں اپنی جنگی   طاقت میں  اضافہ کیا۔ جبکہ نیٹو نے  ترک سر زمین پر  روس کے خلاف ایک فوجی اڈہ قائم  کرنے کی تجویز پیش کی۔ اللہ  تعالی ٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ترک  رہنما  رجب طیب ایردوان نے اس تجویز  کو ہو بہو واپس لوٹا دیا،   وگرنہ ترکی اس مخبوط الحواس  کھیل کا ایک آلہ کار بن جاتا۔

بعد ازاں شمالی کوریا کے میزائل تجربات  اور امریکہ  کی   کوریا کے پانیوں میں اپنی فوج کو جمع کرنے کے واقعات  سامنے آئے۔

اس کے بعد فلپائن ، آراقان،    پاک ۔ بھارت  تنازعات سے  بحرِ ہند   میں کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی، جس نے علاقائی ملکوں کی  فوجوں کو چاق و چوبند کیا۔ جس پر  کافی اخراجات آرہے ہیں ،  جو کہ ملکوں کے بجٹ  پر   بوجھ  بن رہے  ہیں۔

ان سب واقعات کے رونما ہونے کے وقت  بطور صحافی  ہم یہ بخوبی  دیکھ سکتے ہیں کہ مشرقی بلاک  اپنے منتشر ہونے سے قبل کے دور کی صورتحال سے  دو چار   ہو رہا  ہے۔

اس دور کے امریکی صدر رونالڈ ریگن  اور  سوویت یونین کے صدر لیونڈ بریژنیو  کا     بے ڈھنگا اور بے معنی "سٹار وارز" منصوبہ  بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

اس دور میں   ضرورت سے زائد افراد  نوکریاں کر رہے  تھے ، ٹیکنالوجی    نے ترقی حاصل کرلی تھی اور  افرادی قوت   کی مانگ میں کمی واقع ہوئی تھی۔ اسی دوران سرمایہ کاری کے نئے شعبے  ظہور  پذیر  ہونے لگے تھے۔

تاہم لیبر  یونینز اور تنظیمیں اس تبدیلی  کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے تھے،  دوسری جانب   اس  مجبوری   تبدیلی کا  کوئی متبادل یا پھر حل چارہ  بھی تلاش نہ کیا جا  پا رہا  تھا۔

جس کے نتیجے میں  یونینز نے دو طاقتور ملکوں    امریکہ اور برطانیہ  سمیت  کمیونسٹ بلاک کے  کلیدی ملک پولینڈ میں پہیہ جام  ہڑتالیں شروع کر دی تھیں۔

تعاون تنظیم کے صدر لیح والیسا  کی جانب سے پولینڈ میں شروع کردہ  ہڑتال اور افغانستان میں   شکست  نے    روسی کمیونسٹ  انتظامیہ کو زوال پذیر کر دیا۔

اس دور کی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ  اور امریکی صدر  ریگن  اپنی فوجوں کی حمایت کے ساتھ  ہڑتالوں کا زور توڑنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ حت

اس طرح  سن 1947 کے ماڈل کو الماری میں بند کر دیا گیا اور ٹیکنالوجی کی حامل  پیداواری پالیسیوں کو اپنایا گیا۔

اب دنیا بھر میں سرمائے کی سطح  ایک نا قابل یقین حد تک جا پہنچی ہے۔ جاپانی، امریکی اور یورپی سرمائے کے مقابلے میں چینی، روسی اورکوریائی اور حتیٰ ترک سرمائے کی کثرت  کا وجود عمل میں آیا۔ اس سرمائے کے  پیداواری  طریقہ کار میں  موجودہ مالی منڈیوں کے حالات اور قوانین  ناکافی  ثابت ہورہے ہیں۔ پیداوار اور شراکت داری کی مفاہمت  میں جدت نہ لانے والا سرمایہ  دنیا  کی از سر نو تشکیل  کے   لیے     کسی کھیل میں ہمیں  اداکار  کی حیثیت دیتا ہے۔

کیونکہ،  امریکہ اور یورپی یونین کی اقتصادیات  کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔   صرف امریکہ کا سرکاری قرضہ 20 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جرمنی کے علاوہ کے   یورپی یونین کے  رکن ممالک    کا یا تو دیوالیہ نکل چکا ہے  یا پھر یہ اس کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔اس کے بر عکس سرمائے حکومتوں سے زیادہ  طاقتور بن چکے ہیں۔ میں امید  اور تمنا کرتا ہوں کہ نئی پیداوار اور کھپت کے نظام  پر عمل درآمد پر امن طریقے سے ہو گا۔ کیا  قاتل کے  انگلیوں کے نشانات وقت سے پہلے ہی سامنے   آچکے ہیں۔



متعللقہ خبریں