قدم بہ قدم پاکستان - 27

آئیے! آج آپ کو باغ جناح لاہور کی سیر کرواتے ہیں

769515
قدم بہ قدم پاکستان - 27

آئیے! آج آپ کو باغ جناح لاہور کی سیر کرواتے ہیں۔

باغوں کے شہر لاہور کا موسم ان دنوں محبوب کی اداؤں جیسا ہو چکا ہے۔ کبھی تیز دھوپ اور حبس‘ کبھی ٹھنڈی ہوائیں اور بادل‘ کبھی بوندا باندی اور کبھی موسلادھار بارش‘ لاہور کے شہری جونہی فضا پر بادل منڈلاتے دیکھتے ہیں تو سیر سپاٹے اور موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ ان کا رخ مختلف تفریح گاہوں کی طرف ہوتا ہے۔ یوں تو لاہور میں بہت سے تفریحی مقامات ہیں لیکن لاہوریوں کی اکثریت باغ جناح کا رخ کرتی ہے کیونکہ یہ شہر کے مرکز میں واقع ہے اور اس کے متصل چڑیا گھر بھی ہے۔ اپنی تاریخی حیثیت‘ وسعت اور خوبصورتی کی وجہ سے بھی یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

باغ جناح کا پرانا نام لارنس گارڈن تھا۔ باغ کی تعمیر سے پہلے یہ جگہ ویران تھی۔ 1862ءمیں ایگری ہارٹی کلچر سوسائٹی نے ایک چھوٹا سا باغ بنوایا۔ 1869ءتک باغ کو مزید وسیع اور خوبصورت کر دیا گیا۔ 1872ءمیں یہاں زوالوجیکل گارڈن چڑیا گھر بنایا گیا جبکہ باغ کا ایک حصہ محکمہ زراعت و باغبانی کو دیا گیا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو 14 ایکڑ اراضی دی گئی جو بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ باٹنی کو نباتات پر تحقیق کے لئے دے دی گئی۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر ٹی ای براؤن نے 1861ءمیں ایگری ہارٹی کلچر سوسائٹی کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا تو یہ باغ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مال روڈ جسے اب شاہراہ قائداعظم کہا جاتا ہے یہاں 176 ایکڑ اراضی پروفیسر ڈاکٹر ٹی ای براؤن نے مزنگ کے زمینداروں سے صرف 235 روپے میں خریدی تھی۔ ابتدا میں اس کا نام ایگری ہارٹی کلچر گارڈن رکھا گیا تھا۔ اس وقت باغ جناح کا کل رقبہ 141 ایکڑ ہے۔ جس میں تقریباً 18 ایکڑ پر عمارتیں‘ سڑکیں‘ لائبریری‘ مسجد اور ریسٹورنٹ ہے۔

اس باغ کو لارنس گارڈن کا نام دینے کی باقاعدہ تقریب 6 نومبر 1915ءمیں ہوئی۔ اس سال باغ میں پہلا ٹیوب ویل لگایا گیا۔ 1921ءمیں باغ کے اندر سڑکیں بنائی گئیں۔ 1925ءمیں باغ کا نظم و نسق محکمہ زراعت کے حوالے کیا گیا تب سے آج تک یہ باغ محکمہ زراعت کے زیر نگرانی ہے۔ بعد میں تعمیر شدہ ایک حصے کا نام ”مغل گارڈن“ ہے۔ جس میں خوبصورت فوارے‘ بارہ دریاں اور راہداریاں موجود ہیں۔ یوں یہ باغ مشرقی اور مغربی فن تعمیر کا آئینہ دار ہے۔

باغ جناح میں تین پہاڑیاں ہیں۔ یہ اینٹوں کے بھٹے تھے۔ ان کے ملبے کو جمع کرکے پہاڑیوں کی شکل دے دی گئی۔ ان پر درخت‘ پودے اور پھول اگا دئیے گئے جس سے باغ کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا۔ ایک پہاڑی سر سکندر حیات اور دوسری سر فضل حسین کے نام سے منسوب ہے۔ تیسری پہاڑی پر اوپن ایئر تھیٹر قائم ہے۔ جہاں سٹیج ڈرامے اور ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ باغ کا سب سے دلفریب حصہ ”گلستان فاطمہ“ ہے۔ یہ پہلے ایک جوہڑ تھا لیکن اسے خوبصورت باغ کی شکل دے دی گئی۔

1947ءمیں محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر اس کو گلستان فاطمہ کا نام دیا گیا۔ باقی باغ سے گہرا ہونے کی وجہ سے اسے تخت دار بنایا گیا ہے۔ اس کا پہلا حصہ ساڑھے چار فٹ گہرائی میں ہے۔ یہاں پودے‘ پھول‘ محرابی دروازے‘ پتوں سے بنا گیا پاکستانی پرچم اور مور کے سروں والی نشستیں خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دارالسلام لائبریری اور مسجد دارالسلام ہے۔ ان کے علاوہ باغ جناح میں کاسمو پولیٹن کلب کی عمارت‘ قائداعظم لائبریری‘ حضرت شرف الدین قادریؒ‘ حضرت ترت مراد شاہؒ اور ان کی ہمشیرہ کے مزارات ہیں۔ لیڈیز کلب اور بچوں کے لئے جھولوں پر مشتمل پارک بھی ہیں۔

باغ جناح میں موجود دو نہایت خوبصورت سفید عمارتوں میں سے ایک لارنس ہال ہے جو 1862ءمیں انگریزوں کے چندے سے بنایا گیا تھا جو پنجاب کے پہلے گورنر سر جان لارنس کی یادگار ہے۔ اس کی تعمیر پر 34000 روپے لاگت آئی۔ اس کا ڈیزائن سول انجینئر مسٹر جی سٹون نے بنایا تھا۔ اس کے ساتھ والی خوبصورت عمارت منٹگمری ہال کہلاتی تھی۔ یہ عمارت بھی انگریزوں اور ہندوؤں کے چندے سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس دلکش عمارت میں اب قائداعظم لائبریری قائم ہے جو پوسٹ گریجوایٹ طلبا و طالبات کے لئے مخصوص ہے۔

باغ جناح میں داخلے کے لئے تین اطراف سے کئی گیٹ ہیں۔ ایک طرف لارنس روڈ جسے حال ہی میں شاہراہ مجید نظامی کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری طرف شارع ایوان تجارت جبکہ تیسری طرف شاہراہ قائداعظم ہے۔ باغ کے اندر کرکٹ گراؤنڈ بھی ہے جہاں کرکٹ میچ کھیلے جاتے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم بھی ہے جس پر مرد و خواتین جاگنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

باغ جناح کے اطراف میں پنجاب یونیورسٹی کا امتحانی مرکز‘ چائنا چوک‘ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی عمارت‘ پولیس کلب‘ سرکاری افسران کی رہائش گاہوں پر مشتمل جی او آر ون اور چمبہ ہاؤس‘ چلڈرن کمپلیکس‘ گورنر ہاؤس‘ الحمرا آرٹس کونسل‘ واپڈا ہاؤس‘ آواری ہوٹل‘ ایوان اقبال‘ پنجاب اسمبلی‘ چڑیا گھر‘ ایوان وزیراعلیٰ اور دیگر اہم عمارات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باغ جناح میں سیرو تفریح کے لئے آنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔

باغ جناح پاکستان کا سب سے قدیم باغ ہے۔ اس میں 450 اقسام کے 21 ہزار سے زائد درخت ہیں۔ ہزاروں قیمتی اور نایاب پودے ہیں کئی پودے ایسے ہیں جو صرف پاکستان میں ہیں دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ اپنی وسعت‘ خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے باغ جناح پورے ایشیا میں مشہور ہے۔ نیشنل جیو گرافک سوسائٹی امریکہ نے اسے پاکستان کا تاج اور پورے ایشیاءکے لئے اہم اثاثہ قرار دیا تھا۔

آپ کبھی لاہور آئیں تو باغ جناح دیکھنا نہ بھولیں۔ آئندہ آپ کو کسی اور مقام کی سیر کروائیں گے تب کے لئے اجازت۔ اللہ حافظ

 



متعللقہ خبریں