قدم بہ قدم پاکستان - 17

آئیے آج آپ کو استنبول چوک لاہور لیے چلتے ہیں۔ جی ہاں استنبول تو برادر اسلامی ملک ترکی میں ہے لیکن پاک ترک دوستی کی علامت استنبول چوک لاہور میں ہے

724197
قدم بہ قدم پاکستان - 17

آئیے آج آپ کو استنبول چوک لاہور لیے چلتے ہیں۔ جی ہاں استنبول تو برادر اسلامی ملک ترکی میں ہے لیکن پاک ترک دوستی کی علامت استنبول چوک لاہور میں ہے۔ 


ایک زمانے میں عجائب گھر کے سامنے واقع چوک کو اس جگہ موجود تاریخی زمزمہ توپ کی وجہ سے ’’زمزمہ چوک‘‘ کہا جاتا تھا مگر جب لاہور اور استنبول (ترکی) کو جڑواں شہر قرار دیا گیا تو اس کو ’’استنبول چوک‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ 


لاہور اور استنبول کو جڑواں شہر قرار دینے کے سلسلے میں 19 فروری 1975ء کو استنبول کی بلدیہ نے بلدیہ لاہور کو ایک مراسلہ ارسال کیا جسے لاہور کی بلدیہ کی کونسل نے منظور کر لیا۔ یوں لاہور اور استنبول جڑواں شہر قرار پا گئے۔ اس دوستی کی یادگار کے قیام کے متعلق مسلسل غور ہوتا رہا۔ یوں 11 جنوری 1979ء کو ٹاؤن ہال کے پہلو میں واقع اس چوک کا نام ’’ استنبول چوک‘‘ تجویز ہو گیا۔ چوک کا نام رکھنے کے لئے جناح ہال میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا ۔ چوک کی تختی کی نقاب کشائی استنبول (ترکی) کے میئر آئی نکین کوتل نے کی۔ اس موقع پر استنبول کے میئر کو لاہور کی اعزازی شہریت، مینار پاکستان کا ماڈل اور شہرکی چابی پیش کی گئی۔ یوں ناصر باغ، پنجاب یونیورسٹی کیمپس، نیشنل کالج آف آرٹس، ٹاؤن ہال اور عجائب گھر کے درمیان واقع یہ اہم چوک دو برادر اسلامی ملکوں، پاکستان اور ترکی کی دوستی کی یادگار بن گیا۔ 


اس چوک کو ’’استنبول چوک‘‘ کا نام دیا گیا تو یہاں فوارے اور لائٹس لگا کر اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے گئے۔ استنبول چوک میں ٹاؤن ہال کی حدود میں ایک سیبر لڑاکا طیارہ دیکھنے والوں کے لئے خاصی کشش رکھتا ہے۔ یوں تو سیبر طیارہ نقل و حرکت اور پرواز کے اعتبار سے بہترین جنگی جہاز سمجھا ہی جاتا ہے مگر استنبول چوک میں نصب یہ طیارہ سیبر 68 خصوصی تاریخ کا حامل ہے۔ یہ طیارہ وہ ہے جسے 65ء کی جنگ میں قوم کے ہیرو ڈپٹی سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے استعمال کیا اور اس کے ذریعے لاہور کی فضاؤں میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ ایم ایم عالم نے اس طیارے سے بھارت کے نو طیارے مار گرائے تھے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ان کے اس کارنامے کا ذکر ایک انگریز مصنف جان واک نے بھی اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ جنگ کے بعد یہ طیارہ جس نے لاہور کی فضاؤں میں بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے اسے کراچی منتقل کردیا گیامگر اہل لاہور کی خواہش تھی کہ اسے لاہور لایا جائے۔


پاک فضائیہ نے جب اس طیارے کی نیلامی کا منصوبہ بنایا تو میئر لاہور میاں شجاع الرحمن نے اسے حاصل کرنے کی درخواست کی۔ خط و کتابت کے بعد سیبر طیارہ بلدیہ لاہور کو تحفہ مل گیا۔ فضائیہ نے یہ طیارہ مئی 1982ء میں بلدیہ لاہر کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ طیارہ کراچی سے این ایل سی کے کنٹینر میں پیک کر کے لاہور لایا گیا جہاں اسے دوبارہ جوڑا گیا۔

میئر لاہور نے اپنے ساتھیوں معراج دین اور عبدالحمید وغیرہ سے مشورے کے بعد طیارے کو جناح ہال کے روزگارڈن میں لگانے کے لئے پلیٹ فارم تعمیر کرایا۔ 28 جولائی 1983ء کو طیارہ اس کے موجودہ مقام پر فوج کے جوانوں نے خود نصب کیا تھا۔ یوں سترہ سال بعد یہ طیارہ لاہور کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا۔ یاد رہے کہ ایسا ہی ایک سیبر طیارہ پہلے ہی فورٹریس سٹیڈیم کے باہر لگایا جا چکا تھا۔فورٹریس سٹیڈیم کے باہر نصب طیارہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ طیارہ پاک فضائیہ کے ہیرو سرفراز رفیقی کا تھا۔ انہوں نے اس طیارے سے لاہور کی فضاؤں میں بھارتی طیاروں سے دوبدو لڑائی کی تھی جسے لاہور کے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ پاک فضائیہ نے لاہور کو تین طیارے بطور تحفہ دیئے۔ ان میں سے ایک طیارہ استنبول چوک دوسرا چائنہ چوک اور تیسرا فورٹریس سٹیڈیم کے باہر نصب کیا گیا ہے۔ 


استنبول چوک پاکستان اور ترکی کے درمیان لازوال دوستی اور محبت کا ثبوت ہے۔ اگلے ہفتے آپ کو کسی اور مقام کی سیر کروائیں گے تب تک اپنے میزبان کو اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ۔

....٭٭٭....



متعللقہ خبریں