قدم بہ قدم پاکستان - 08

آج آپ کو مقبرہ جہانگیر لاہور لیے چلتے ہیں۔ مقبرہ جہانگیر کو مغلیہ عہد میں تعمیر کئے گئے مقابر میں اہم مقام حاصل ہے

684148
قدم بہ قدم پاکستان - 08

آئیے! آج آپ کو مقبرہ جہانگیر لاہور لیے چلتے ہیں۔ مقبرہ جہانگیر کو مغلیہ عہد میں تعمیر کئے گئے مقابر میں اہم مقام حاصل ہے۔ دریائے راوی کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ کی طرف سے لاہور آئیں تو مغلیہ دور کی تعمیرات میں سے مقبرہ جہانگیر، مقبرہ آصف جاہ اور ملکہ نور جہاں کا مقبرہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا شمار مغلوں کی تعمیر کردہ حسین یادگاروں میں ہوتا ہے۔

مقبرہ جہانگیر باغ ”دلکشا“ میں واقع ہے۔ باغ دلکشا نواب مہدی قاسم کی ملکیت تھا جو اکبر بادشاہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا۔ اُس نے یہ باغ 1556ءمیں دریائے راوی کے پار بنوایا تھا۔ نواب مہدی خاں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جب مہر النساءبیگم ملکہ نور جہاں بنی تو اس نے اس کا نام باغ دلکشا رکھ دیا۔ اب لوگ باغ دلکشا کا نام بھول چکے ہیں اور اس ساری جگہ کو اب مقبرہ جہانگیر ہی کہا جاتا ہے۔ مقبرہ جہانگیر کی تعمیر کا آغاز ملکہ نور جہاں نے کیا تھا اور شاہ جہاں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شہنشاہ اکبر کی وفات سن 1605ءمیں ہوئی تو اس کا بیٹا جہانگیر ”نور الدین جہانگیر“ کے لقب کے ساتھ تخت نشیں ہوا کیونکہ شہنشاہ اکبر کے دو بیٹے مراد اور دانیال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جہانگیر 20 ستمبر 1569ءکو فتح پور سیکری میں پیدا ہوا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے کئی اصلاحات کیں۔ کان، ناک اور ہاتھ کاٹنے کی سزا کو منسوخ کر دیا۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیاءکا استعمال ممنوع قرار دیا۔ کئی محصولات ختم کر دیئے۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار کے ساتھ ایک زنجیر لگوا دی جسے زنجیرِ عدل کہا جاتا تھا۔ جس کے ذریعے ہر کوئی اپنی شکایت باآسانی بادشاہ تک پہنچا سکتا تھا۔ یہ زنجیر تیس گز طویل تھی اور اس کے ساتھ سونے کی ساٹھ گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس کو بادشاہ کے ذاتی کمروں میں موجود طلائی گھنٹیوں کے ایک جھرمٹ سے وابستہ کیا گیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے حکم دیا کہ شاہراہوں پر سرائے، کنویں اور مساجد تعمیر کی جائیں۔ اُس نے بڑے شہروں میں شفاخانے قائم کیے، وہاں طبیب مقرر کیے تاکہ وہ سرکاری اخراجات پر عوام کا علاج کریں۔ اس نے اپنے والد کے زیادہ تر وزراءکو ان کے عہدوں پر بحال رکھا لیکن جنہوں نے دینی اختراعات کے سلسلے میں شہنشاہ اکبر کی حمایت کی تھی انہیں عہدوں سے ہٹا دیا اور دین اسلام کو سابقہ حیثیت میں بحال کیا۔

شہنشاہ جہانگیر کو بھی اپنے باپ اکبر کی طرح لاہور سے بہت زیادہ لگاو تھا۔ اس نے 1622ءمیں  لاہور کو دارالسلطنت بنا لیا۔ 1624ءمیں جب کشمیر کے سفر کے دوران اس کی وفات ہوئی تو اس نے وفات سے قبل لاہور میں دفن کیے جانے کی خواہش ظاہر کی تھی چنانچہ اسے چہیتی بیگم ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا میں دفن کیا گیا۔ مہر النساءبیگم یعنی ملکہ نور جہاں نے مقبرے کی تعمیر کا آغاز کیا۔ شاہ جہاں نے مقبرے کی تعمیر مکمل کروائی۔ اس نے مقبرے کی تعمیر پر دس لاکھ روپے خرچ کیے تھے اور اخراجات کے لیے جاگیر مقرر کی گئی تھی۔ قرآن پاک پڑھنے کے لیے حفاظ مقرر کئے گئے جو باری باری ہر وقت مزار پر قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ سکھوں کے عہد حکومت میں ختم کر دیا گیا۔

مقبرہ جہانگیر کی حدود میں ملکہ نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ یہاں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی اختیار کی اس لیے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کی گئی تھیں۔ ملکہ نور جہاں اور شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے ایک ہی رقبے میں تھے لیکن جب انگریزوں نے ان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی تو مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔

مقبرہ جہانگیر کے چاروں کونوں پر خوبصورت مینار موجود ہیں۔ ہر مینار سو فٹ بلند ہے اور اس کی اکسٹھ سیڑھیاں ہیں۔ مقبرہ کی عمارت ایک مربع نما چبوترے پر ہے۔ قبر کا تعویز سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔ دائیں اور بائیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں۔ سرہانے کی طرف بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے۔ پائنتی کی طرف یہ تحریر درج ہے۔ ”مرقد منور اعلیٰ حضرت غفران پناہ نور الدین جہانگیر بادشاہ 1036 ہجری“۔

 مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ مقبرے کا اندرونی فرش سنگ مرمر، سنگ موسیٰ اور سنگ ابری جیسے مختلف قیمتی پتھروں سے مزین ہے۔

باغ دلکشا کے اندر پختہ روشیں اور سڑکیں موجود ہیں۔ مقبرہ جہانگیر کا غربی دروازہ جس میں سے ہاتھی بمعہ سوار کے گزر سکتا تھا اور چار دیواری کے باہر جو چار بہت بڑے کنویں تھے دریا برد ہو چکے ہیں صرف ایک کنواں اب بھی موجود ہے۔ باغ کے اندر آج بھی کھجور کے قدیم درخت موجود ہیں۔ باغ کی دیواروں کے ساتھ کمروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جہاں شاہی محافظ، سپاہی اور خدام رہا کرتے تھے۔ مقبرہ ہشت پہلو اور اندر سے گنبد نما ہے۔ مقبرہ کے میناروں سے لاہور شہر کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

شہنشاہ جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے حالات اپنی کتاب ”تزک جہانگیری“ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس کتاب میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کے عشق و محبت کے دلچسپ قصے بھی درج ہیں۔

نادر شاہ اور احمد شاہ کے حملوں اور سکھوں کے دور میں مقبرہ جہانگیر کو بہت نقصان پہنچا۔ سنگ مرمر کی جالیاں اور قیمتی پتھر اکھاڑ لیے گئے اس کے باوجود یہ عمارت آج بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔



متعللقہ خبریں