ترکی کا اُفق نو ۔ 22

ترک ہاوسنگ اتھارٹی کے منصوبوں کے سماجی زندگی میں اہم اثرات پر ایک جائزہ

502187
ترکی کا اُفق نو ۔ 22

سوشیالوجی کو تبدیلیوں و   تغیرات   کا علم  بھی کہا جاتا ہے۔  کیونکہ   سماجی تبدیلیوں کے  محرکات   ہر معاشرے کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔  یہ تبدیلیاں   وقت اور دور کے اعتبار    سے  بھی   اپنی  خاص ماہیت  رکھتی ہیں۔ تا ہم یہ   عمل  ہر معاشرے میں    جاری ہے۔ البتہ     ماہرین سوشیالوجی     تبدیلیوں کے محرکات کے معاملے  میں    ہم خیال نہیں   ہیں۔  ان تمام  باتوں کے باوجود    ہم  ان    تبدیلیوں کا مشاہدہ   کرتے  چلے آرہے ہیں۔

 عصر حاضر   کی   تبدیلیوں سے  سب سے زیادہ  متاثرہ     شعبوں میں  سے ایک  عائلی      امور ہے۔   عائلی ڈھانچے   اور اس کے عوامل  میں   رونما ہونے والے رد و بدل سے  دیگر معاملات  بھی  تغیرات آتے ہیں جو کہ      ایک    بڑےبڑے اثرات  کا  موجب بنتے ہیں۔  مثال کے طور پر     خاندانی    امور  اور ڈھانچے   میں  رونما   ہونے والی یہ تبدیلیاں      مکانات   کی مانگ  میں   اضافے  کا    موجب بنی ہیں۔ بنی نو انسان  تاریخ  بھر کے دوران  اپنی ضروریات کو   پورا کر سکنے    کی حد تک کسی  جگہ اور ٹھکانے    کو حاصل کرنے کی جستجو میں رہے ہیں۔

میرے خیال میں موجودہ   دنیا کے   کئی ایک  مقامات پر  زندگی  بسر کرنے والے   لوگ    اپنے  قرب و جوار کے علاقے میں  مکان خریدنے کے متمنی ہیں  اور  اس کے لیے    انہیں بھاری   رقوم   بھی  خرچ کرنی پڑتی ہیں۔

ترکی میں   شاید   متعدد ملکوں کے مقابلے میں  مالک ِ مکان بننے  کی خواہش  اور  تمنا زیادہ    ہے۔ گھر و مکان    سے  وابستگی اور اس کا مفہوم     ترک عوام  کے  لیے  ایک انتہائی  حساس  معاملہ ہے۔

اناطولیہ میں   ایک  کہاوت  مشہور  ہے کہ'دنیا میں مقام ، آخرت میں  ایمان  '   یعنی      اس جہاں  میں   گھر کا   مالک بننا     دوسرے    جہاں میں  جنت میں جگہ  پانے  کی تسکین        کے  مترادف  تصور کیا جاتا ہے۔

ترکی  میں گھروں کی  مانگ میں  اضافہ   شہری آباد کاری       میں سرعت سے  تیزی آنے   کا   سبب  ہے۔  لیکن اس  کے ساتھ ساتھ  یہ مانگ  زیادہ تر   زلزلے اور  اس طرح کی قدرتی آفات کے  خطرات   کے خلاف مطلوبہ  سطح   تک مضبوط   اور پائدار نہ ہونے    والے  مکانات      کی تعمیر   کا موجب  بنتی ہے۔

لہذا  ترکی    کی شہری آباد کاری پالیسیوں    کو      ان حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے  از سر نو تشکیل دیا جانا لازمی ہے۔  مکانات   کی مانگ کو پورا کرنا اور   پائدار مکانات کو منہدم  کرنا  یا پھر انہیں مضبوط  بنانا  اس    نئی تشکیل کا مقصد ہونا چاہیے۔

استنبول  کے مکینوں   کی  صاحبِ مکان ہونے     کی خواہش کو پورا کرنے  کے لیے     ایک ہاوسنگ  اتھارٹی یعنی    نامی سرکاری ادارہ  بر سر پیکار ہے، توکی  دو     معاملات پرخدمات فراہم کرنے والا ایک  ادارہ ہے۔  جیسا  کہ ہم نے  پہلے ذکر کیا ہے کہ    شہریوں کو  نئے اور معیاری  مکانات    فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ    خستہ حالت میں ہونے والے مکانات کی مرمت   کا ذمہ اس ادارے  کے ذمے ہے۔

آق پارٹی کے اقتدار سے قبل   لوگوں  کو گھر کا مالک بننے   کی خاطر   عمر بھر  کام   کرنا پڑتا تھا ۔  گھروں کا کرایہ  کسی   درمیانی  آمدنی کے حامل  کلرک  کی تنخواہ  کے 50 فیصد کو تشکیل   دیتا تھا۔   یعنی      خاندانی بجٹ کا ایک بڑا  حصہ گھر کے کرائے میں  خرچ ہو جاتا تھا۔  میں  جب  اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے  تک پہنچا تھا تو میری تنخواہ اس  دور کی کرنسی کے مطابق 60 ہزار  ترک لیرے تھی تو میرے گھر کا کرایہ  25 ہزار   لیرے تھا۔  دوسرے معنوں میں  کرایہ دار مالک  مکان  کے لیے   مہینہ  بھر محنت کرتا تھا۔

جو کہ  در حقیقت ایک   طویل عرصے تک برداشت نہ کر سکنے والی ایک صورتحال تھی۔ آق پارٹی نے  اس    لاچارگی  کو    ہاوسنگ اتھارٹی  ادارے کوقائم کرتے ہوئے دور کیا۔

میگا   پراجیکٹس  کے ذریعے   پائدار اور موزوں نرخوں     کے ساتھ  مکانات   اور فلیٹس  تعمیر کیے  گئے۔ اور انسانوں کی رہائش  گاہ     کی ضروریات کے ایک بڑے حصے  کو پورا کر دیا گیا۔ تاہم   اب توکی سے مزید توقعات  وابستہ ہیں۔

اب  بنیادی  ضروریات کو پورا کرنے والے فلیٹس کے بعد    ترک  شناخت و ثقافت کی عکاسی کرنے والے  مکانات اور گھروں کے منصوبے بھی تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔

شاید  اب   مکانات   تعمیر کرنے کی سوچ اور منطق   پر مبنی پالیسیاں   بدل  چکی ہیں،     لیکن ان میں مزید تبدیلیوں کے لیے   سماجی طور پر  بھی ہمیں  اپنی سوچ کو وسعت دینی ہو گی۔ جس میں  پروفیسر حضرات  اور سیاستدانوں سمیت  عوام الناس  اپنی خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔

 ترکی میں منفرد اعتقاد،  ثقافت اور تہذیب کے مطابق    منصوبہ   بندی کیے جانے پر    بحث  چھڑ  چکی ہے۔

 میں  شہری    سوشیالوجی،   شہری منصوبہ بندی اور معماری       سے    اکیڈمی  سطح پر قریبی طور پر دلچسپی لینے والا     ایک ماہر بھی  ہوں۔ اگر  ہم   دیگر  ترقی یافتہ معاشروں کی طرح  اپنے لیے     کسی شہری  منصوبے   یا ماڈل کو تشکیل نہیں   دیتے  تو پھر  یہ ہمارے لیے کسی ناکامی کے مترادف ہو گا۔

میں  یہ اعتراف  کرتا ہوں کہ  خطہ یورپ میں خاصکر  15 ویں اور 16 ویں صدی میں   پر احتشام  جیومیٹریکل اشکال میں تعمیر کردہ شہروں کا  میں     بڑے   رشک کے ساتھ ساتھ حسد  کی نظر س مشاہدہ کرتا  ہوں،ہم بھی  اپنے  شہروں   کو اسی طرز پر قائم کر سکتے ہیں ۔   مسلمانوں کا قیام کردہ شہر کس  طرح ہونا چاہیے   سوال کو  پوچھتے ہوئے     اس کا جواب عملی طور پر دیے  جا سکنے والے شہروں کی  ہمیں ضرورت ہے۔



متعللقہ خبریں