اسلامی تعلیمات 20

اسلام میں عبادت کا طریقہ اور اس کی فضیلت

494997
اسلامی تعلیمات 20

انسان میں عبادت کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے ۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد خالق کی ہستی اور اس کے احسانات کے شعور پر ہے جو انسان کی فطرت میں اس طرح پیوست ہے کہ کوئی چیز اسے اس سے جدا نہیں کر سکتی۔ مذہب اپنی نفسیاتی بنیاد کے لحاظ سے تمام تر انسان کے جذبۂ شکر واعتراف کی تصویر ہے۔ انسان جب کائنات میں اپنے مالک کی قدرت وعظمت کے بے شمار مظاہر کا مشاہدہ کرتا اور اپنی روز مرہ زندگی میں اس کی بے پایاں رحمت وربوبیت کا تجربہ کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر وتعظیم، خشیت وتضرع اور امید وتوقع کے بے پناہ جذبات امڈ آتے ہیں۔ یہ روحانی جذبات جب مختلف رسوم کی شکل میں ایک جسمانی قالب اختیار کرتے ہیں تو اس سے عبادت وجود میں آتی ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایک مکمل اور فطری عبادت وہی ہے جو اعلیٰ جذبات وکیفیات اور اعلیٰ رسوم دونوں کے امتزاج سے وجود میں آئے۔ جذبہ نا مکمل ہے ، اگر اس کے اظہار کے لیے رسوم کا سہارا نہ لیا جائے، اور رسوم کی حیثیت محض ایک مشینی عمل کی ہے ، اگر ان کی پشت پر خالص اور سچے جذبات کارفرما نہ ہوں۔ انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان اپنے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی اعتدال پر قائم نہیں رہ سکا، بلکہ اکثر وبیشتر افراط وتفریط ہی میں مبتلا رہا۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس معاملے میں بھی آں سوے افلاک کی طرف سے انسان کو رہنمائی میسر آئے جو اس کے اس فطری تقاضے کی تشفی وتکمیل کا سامان مہیا کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ آخری شریعت میں جو نظام عبادت تجویز فرمایا ہے، اس میں کس خوبی کے ساتھ ان دونوں پہلووں کی رعایت کی گئی ہے۔

رسوم عبادت کی تعیین

اس نظام عبادت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس میں رسوم عبادت بالکل متعین طور پر بتا دی گئیں اور ان کی تمام حدود وقیود کو واضح کرتے ہوئے ان میں کمی بیشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

رسول  سرور کونین  نے فرمایا کہ :

 دین میں نئے نئے کاموں سے بچو۔ کیونکہ ایسا ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

 دوسری حکمت یہ ہے کہ اس طریقے سے عبادت کے جذبے کو ان تمام غیر فطری تجاوزات اور آمیزشوں سے محفوظ رکھنے کا سامان ہو جاتا ہے جن کی مثالیں نسل انسانی کی تاریخ میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ مظاہر پرست مذاہب، عیسائیت کی رہبانیت اور مبتدعانہ تصوف میں عقل وفطرت کے منافی جو طریقہ ہاے عبادت اختیار کیے گئے، ان کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس بات کی حکمت سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
تیسری حکمت یہ ہے کہ رسوم عبادت کا ایک متعین نظام دوسرے مذاہب سے مذہب حق کے امتیاز کا ایک نہایت قوی خارجی عامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں باہمی امتیاز صرف ان کے رسوم عبادت ہی سے ممکن ہے۔ جہاں تک ان رسوم کے پس منظر میں موجود جذبات ونفسیات کا تعلق ہے تو وہ ، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، سب مذاہب میں مشترک ہیں، اس لیے کہ وہ انسان کے فطری جذبات ہیں۔ چنانچہ اگر ایک متعین طریقۂ عبادت کی عصبیت لازم نہ کی جائے اور ہر قسم کے طریقوں کو اختیار کرنے کی اجازت ہو تو سماجی سطح پر مذہب حق کی حفاظت اور دوسرے مذاہب سے اس کے امتیاز کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی اور ظاہر ہے کہ خدا کی حکمت میں یہ بات ناقابل تصور ہے۔

عبادت کو ایک زندہ عمل بنانے کے لیے نفسیاتی لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ اس میں آدمی کو اپنے انفرادی ذوق اور داخلی کیفیات کے تحت بعض چیزوں کے اخذوانتخاب کا اختیار ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اس فطری پہلو کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ چنانچہ دیکھیے کہ اگرچہ نماز کا بنیادی ڈھانچا متعین کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے بعض اعمال کے بارے میں یہ گنجایش رکھی گئی ہے کہ لوگ ان میں اپنے ذوق کے مطابق کوئی بھی طریقہ اختیار کر لیں۔



متعللقہ خبریں