پاکستان ڈائری - 09

اپنا شیلٹر ہوم - ہمارا مذہب اسلام ہمیں یتیموں پر شفقت کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ " اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتمیوں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کروگے

445574
پاکستان ڈائری - 09

اپنا شیلٹر ہوم

ہمارا مذہب اسلام ہمیں یتیموں پر شفقت کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ " اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتمیوں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کروگے وہ اللہ سے چھپی نہیں رہے گی { النساء-۱۲۷}۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی ہمارے سامنے روشن مثال ہےحضرت محمدﷺ نے ہمیشہ یتیموں مسکینوں لاوارثوں پر شفقت فرمائی۔اپنی امت کو بھی یہ ہی درس دیا کہ یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں ان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائیں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی تعالی عنھا سے روایت کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی کفالت کرلے اللہ تعالی ضرور اسے جنت میں داخل کرے گا سوائے کہ وہ کوئی شرک جیسا گناہ کرے۔

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس پر عمل کرکے ہم اپنے معاشرے کو فلاحی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔اپنا اپنا حصہ ڈال کر یتمیوں لاوارثوں کی کفالت کرسکتے ہیں۔غریب اور یتیم بچوں کی کفالت ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی انگریزی ادب کی استاد عاصمہ منیر سلمان بھی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار یتیم بچوں کی کفالت کررہی ہیں۔عاصمہ چوبیس سال سے درس وتدریس سے وابستہ ہیں ان کا تعلق کسی این جی او سے نہیں وہ اپنی ذاتی حیثیت میں یتیم لاوارث اور غریب بچوں کی کفالت کررہی ہیں ۔

عاصمہ منیر نا ہی زیادہ میڈیا پر آتی ہیں اور نا ہی وہ اپنے زیر کفالت بچوں کو مختلف تقریبات کا حصہ بناتی ہیں جس طرح کے عام یتیم خانوں میں ہوتا ہے کہ بچوں کو مختلف تقریبات میں سارا سارا دن لئے کر جایا جاتا ہے ۔عاصمہ کہتی ہیں میں اپنے بچوں کو ایسی کسی نجی اور سرکاری تقریبات کا حصہ نہیں بننے دیتی جس سے ان میں احساس محرومی پیدا ہو۔یہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ہیں اور میں ان کی تریبت اس طرح سے کر رہی ہوں کہ بڑے ہوکر یہ بچے اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

عاصمہ منیر سلمان کہتی ہیں میں نے "اپنا شیلٹر ہوم" تین سال پہلے قائم کیا اور اس وقت چوبیس بچے میری زیر کفالت ہیں۔تمام بچے راولپنڈی میں مدینہ ٹاون میں واقع گھر میں رہتے ہیں اور ہماری یہ ہی کوشش ہے کہ انہیں گھر جیسا ماحول دیا جائے۔انہیں ایسی تعلیم دی جارہی ہے جیسے عام بچے حاصل کررہے ہیں۔میں نے ساری زندگی پوش سکولز میں پڑھایا ہے میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ انڈر پریولیج بچے تو ان سہولیات سے محروم ہیں ۔اس لئے میں یہ ادارہ قائم کیا کہ یتیم بچوں کو بھی ویسی ہی تعلیم دی جائی جیسے عام بچے حاصل کررہے ہیں۔

ہمارے بچے اس وقت بہترین انگلش میڈئم سکولز میں پڑھ رہے ہیں اور اعلی نمبروں سے امتحان پاس کررہے ہیں۔میں اپنی جاب سے فارغ ہوکر میں ایک بجے بچوں کے پاس پہنچ جاتی ہوں وہ اس وقت سکول سے واپس آتے ہیں پھر وہ مولوی صاحب سے قرآن پاک پڑھتے ہیں، اس کے بعد آرام کرتے ہیں پھر ہوم ورک میں خود ان کو پڑھاتی ہوں اور شام میں کھیل کود اور ٹی وی دیکھتے ہیں۔سکول جانے کے لئے ہم نےبچوں کے لئے وین لگا رکھی ہے۔چھٹی کے دن ہم کوئی تفریح پلان کرتے ہیں کبھی چڑیا گھر کبھی سینما کبھی میوزیم اور پکنک کا اہتمام کرتے ہیں۔ میں بچوں کو پوش ایریاز کے ریسٹورانٹس میں بھی لے کر جاتی ہوں تاکہ وہ ہر طرح کی سوسائٹی میں سنک کرسکیں۔

اپنا شیلٹر ہوم کے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر بھی محنت کی جاتی ہے ہم ان کی انگلش ڈرائنگ اور دیگر مشاغل پر توجہ دیتے ہیں۔اگر کسی بچے کو نفسیاتی مسائل ہوں تو اس کی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ان کو ٹیبل مینز سکھائے گئے ہیں میں خود لنچ ان کے ساتھ کرتی ہوں ان کو خود چیزیں سکھاتی ہوں۔ان کی صحت اور ان کی اچھی تربیت ہمارا مین ٹاسک ہے۔

کبھی کبھی ان بچوں کو تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے میں کسی مہنگے ریسٹورینٹ میں انہیں لیے کر جانے پر لوگ اور انتظامیہ اس چیز کا برا مان لیتے ہیں۔مجھے ایسے رویے پر حیرت ہوتی ہے کہ یتیم بچوں کے تو اتنے حقوق ہیں اور لوگ ان سے آگا ہ ہی نہیں۔لیکن دنیا میں اچھے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں بہت سے درد دل رکھنے والے افراد میرا ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کروارہے ہیں۔

عاصمہ کہتی ہیں کہ میں کبھی چندہ نہیں مانگتی لیکن اتنا بڑا ہوم چلانے میں مجھے میرے خاندان اور اجباب کی مدد حاصل ہے۔اگر کوئی کچھ ڈونیٹ کرنا چاہتا ہے تو میں کہتی ہوں آپ خود شیلٹر وزٹ کریں کسی چیز کی کمی محسوس کریں تو وہ چیز بچوں کے لئے آپ لاسکتے ہیں۔

عاصمہ منیر کہتی ہیں کہ کوئی بھی شخص یہ کام شروع کرسکتا ہے اگر آپ ایک بچے کی پڑھائی کا خرچ اپنے ذمے لئے لیں یا کسی غریب بچے کو شام میں خود فری میں پڑھا دیں یا اپنے کسی ملازم یا ماتحت کے بچے کی تعلیم اور خوراک کا ذمہ خود اٹھا لیں تو ہم معاشرے میں بہت تبدیلی لا سکتے ہیں۔اگر آپ میں کچھ ہنر ہے تو وہ آپ ان بچوں میں منتقل کرسکتے ہیں ۔لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بچے کی خودداری یا عزت نفس مجروح نا ہو۔

یتیم بچوں کی تربیت اور کفالت کرنا ہم سب کا فرض ہے اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ملک کو کچھ واپس لوٹائیں۔یتیم بچوں کی اچھی تعلیم اور تربیت کرکے ہم انہیں ملک کا ایک کارآمد شہری بنا سکتے ہیں۔اگر ہم نے اپنے ارداگرد لاوارث یتیم اور غریب بچوں پر توجہ نہیں دی تو وہ بری صحبت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لئے یتیم بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لئے ہم سب کو انفرادی طور پر اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

جویریہ صدیق صحافی،مصنفہ اور فوٹوگرافر ہیں۔ان کی کتاب سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشتں حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ان کا ٹویٹر اکاونٹ

ہے@javerias



متعللقہ خبریں