ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 44
ترکی کی طرز کی پاکستان میں جیلوں کا قیام
پاکستان ترکی کو اپنا رول ماڈل مانتا ہے اسی لیے پاکستان ترکی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے جب سے ترکی نے ترقی کی بے مثال داستان بن کر دنیا کو اپنا اپ منوایا ہے ہر کوئی ترکی جیسی ترقی کا خواہش مند ہے اور کیوں بھی نہ ہو ترقی کرنا آگے بڑھنا ہر کسی کا قانونی حق ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی پنجاب حکومت ترک قیادت کی بہت بڑی فین ہے پنجاب حکومت نے پاکستان کے شہر لاہور میں میڑو بس کے کامیاب منصوبے کو پیش کرنے کے بعد اب پنجاب میں ترکی طرح ماڈل جیلیں بنانے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ اس سلسلے کو عملی جامع پہنانے کے لیئے ہوم سیکرٹری پنجاب میجر اعظم سلیمان اور انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں نذی رنے ترکی کا دورہ کیا۔
یہ دورہ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ وزیر اعلی پنجاب خود پاکستان میں ترقی کے خواہش رکھتے ہیں اس لئے دونوں اعلی افسران نے نہ صرف مکمل تفصیلات حاصل کیں بلکہ وہاں کی جیلوں کا جائزہ بھی لیا اس جائزہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں ہائی سیکورٹی قیدیوں کے لیے ایک نئی جیل بنانے کا پلان تیار کر لیا گیا ہے۔ ترکی کی ماڈل جیل جیسی جیل بنانے سے پہلے ہی ساہیوال کے مقام پر ایک ہائی سیکورٹی جیل تقریباً تیار ہو چکی ہے یہ جیل باقی جیلوں کی نسبت بہتر خیال کی جا رہی ہے لیکن ترکی کی جیل کا خواب جو دیکھا ہے اس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ سہولیات کے حساب سے جیلوں کے درمیان فایئو اسٹارجیل کہلائی گی جس میں قید یوں کو جنیوا کنونشن کے تحت سہہولیات میسر ہوں گی۔ قیدی کا علیحدہ سیل ہو گا یہ ماڈل فایئو اسٹار جیل ٹیلی فون ، فریج ، ٹیلی ویژن، سے آراستہ ہو ں گی۔ قیدی قید میں بھی باآسانی چہل قدمی کر سکیں گے پاکستان میں جیل میں اتنی ساری سہولیات کاسن کر یہ تمام باتیں کہانی جیسا منظر کرتی ہیں کیوں کہ یہاں کچھ سوالیہ نشان جنم لیتے ہیں قیدی بھی انسان ہوتے ہیں ایسا نہیں کہ قیدیوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ بات ہی ہے کہ اگر چور ڈاکو بد معاش قاتل اور دوسرے جرم کرنے والوں کو اتنی آسانی آسائشوں میں رکھا جائے تو ایک شریف شہری اور اور مجرم میں کیا فرق رہ جائے گا ؟
پنجاب حکومت کا یہ اقدام بے شک نیک نیتی پر مبنی ہو سکتا ہے لیکن اسطرح تو جرم کرنے والے اور نڈر اور بہادر ہو سکتے ہیں اور جرم کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں گے کہ جیل میں جا کر کونسی مشقت کرنی پڑے گی آج کل کونسا گھر ایسا جہاں فریج ٹی وی اور دوسری سہولیات موجود نہ ہوں جب گھر میں بھی یہ سہولتیں موجود ہوں اور جرم کرنے کے بعد بھی جیل میں مجرم کو سہولتیں مل جائیں تو پھر گھر اور جیل میں کیا فرق رہ جائے گا ان تمام سوالوں کا سامنا ترکی کو بھی ہو گا۔ لیکن کیا فرق ہے کہ اگر ترکی ایسی جیلیں بنا کر مثال پیش کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں اس میں کامیاب ہو سکتا۔ کسی کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا اور پر آسائش زندگی دینے میں فرق ہوتا ہے۔
اگر جیلوں میں کھانا ناقص ملتا ہے ضرورت زندگی کی آسانیاں نہیں ہوتیں تو یہ انسانی حقوق کے خلاف بات ہو گی لیکن اگر پاکستان میں ترکی جیسی فایئو اسٹار جیلیں بن گئیں تو یہ نہ صرف مجرم کے شکار ہونے والوں کے ساتھہ زیادتی ہو گی بلکہ اس سے جرائم پیشہ افراد کے حو صلے بڑھیں گے اور فایئو اسٹار جیلوں میں آسائش بھری زندگی گزارنے جیل پہنچ جایا کریں گے۔ جب جیل کی سلاخیں نہیں بنائی جائیں گی آسمان صاف نظر آئے گا اور معیاری کھانا کسی کیٹرنگ کمپنی سے آئے گا تو پھر یہ سزا سزا نہیں رہے گی بلکہ مزے کی زندگی میں بدل جائے گی۔ جس سے ان لوگوں کا جرائم کی دنیا میں زیادہ آمد ہوجائےگی جنہیں دنیا نے دھتکار دیا ،جو دنیا میں اکیلے ہیں، جن کی نہ کوئی فیملی ہے نہ اور فیملی بنانے کی فکر۔ وہ یہ سوچ کر مجرم بنیں گے اگر بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے گھر میں کھانا نہیں ملتا بجلی کا بل ادا نہیں کیا جاسکتا تو یہ راستہ آسان ہے کہ جرم کرو اور جیل منتقل ہو جاؤ جس سے بے گھر افراد اور کرایہ دار بھی فریج ٹی وی سے آراستہ فایئو اسٹار جیل جانے کا پلان کرسکیں گے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر فایئواسٹار جیل کا قیام عمل میں آگیا تو جو بھی مجرم نہیں ہو گا وہ بھی قانون شکنی کرے گا۔شاید ترکی میں اس بات کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہو لیکن پاکستان میں ہر بات کو منفی طور پر لیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی ناسمجھ کو اچھائی کی بات بتانا کسی اندھے کو لالٹین دکھانے کے برابر ہے اگر ترکی کی ماڈل جیل کو بنا لیا جائے تو قیدی کو یا جیل کو کیا تصور کیا جائے وی آئی پی گیسٹ یا فایئو اسٹار جیل قیدی کو قیدکا ماحول اور جیل کو جیل تصور کیا جائے تو مجرم کو سزا کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ اگر اسے سزا میں بھی تمام سہولتیں مل جائیں تو اسے سزا کس جرم میں ہوئی ویسے بھی پاکستان میں عام آدمی غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں خود کشی کر رہا ہو عوام بنیادی ضرورت کو ترس رہے ہوں اور عوام ڈپیریشن کا شکار ہوچکی ہ تو و فایئو اسٹار جیل کسی طور پر بننا زیب نہیں دیتا پنجاب حکومت کی سوچ اچھی ضرور ہے لیکن ملک کے حالات قیدیوں کے جرائم اور ملکی خواندگی کو دیکھتے ہوئے ایک بار ضرور سوچ لینا چاہیے۔ادھر بین الاقوامی دباؤ بھی پاکستان پر بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت کا قانون ختم کردیا جائے اگر جرم کی سزا ختم کر کے مجرم کو فایئو اسٹار جیل کی سہولت عطا کردی جائے تو جرم کرنے والے یہ ہی سوچ کر جرم کرتے جائیں گے کہ سزا کونسی ایسی ہے کہ جھیلنی مشکل ہے ؟
اگر سزا ہوئی بھی تو فائیواسٹار ما حول میں گزرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ جن سوالیہ نشانوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ترکی کو ان مسائل کا سامنا نہیں اگر ہے تو پھر ترکی کی ترقی میں ایسا کونسا راز ہے جہاں چور بازاری، رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات بہت کم ہیں ایسے ممالک میں فایئو اسٹار جیل کی موجودگی کی کیا ضرورت ہے جب کہ وہاں جرائم کی شرح بھی کم ہے لیکن پاکستان میں فایئو اسٹار جیل کی تعمیر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے کہ ترکی سے سیکھنے کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں اگر پاکستان میں فایئو اسٹار جیلیں قائم ہو گئیں تو پاکستان میں جرائم کی شرح کیا ہو گی ؟
محمد ناصر اوپل