ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 40

ترکوں کی عادات اور دلیری کی داستان

151156
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 40

دنیا کی ہر قوم اپنی عادت خوبیوں اور خامیوں سے پہچانی جاتی ہے جو اس قوم کو تاریخ، تہذیب،کلچرو ثقافت کا آئینہ دار بناتی ہے اسی سے خصائل صدیوں کے تجربات ،احساسات ،اور مشاہدات جنم لیتے ہیں۔ ماضی اور حالات و واقعات آبا اجداد کی سوچ فکر طرز، عمل، عادت کو پختہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جس طرح ہر قوم اپنی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے اسی طرح ترک قوم بھی اپنے ماضی تاریخ اور بزرگوں سے نسل در نسل آنے والی سوچ سے جڑی نظر آتی ہے۔ ترکوں نے تقریباً سات سو سال تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کی، یورپ ہو یا ایشیا یا پھر افریقہ ہر جگہ اپنی شان و شوکت کی روایات کو برقرار رکھا اسی لیے ترک قوم ایک شاندار ماضی اور شاندار تاریخ لیے ہوئے ہے۔
ساری د نیا جانتی اور مانتی ہے کہ ترکوں نے اپنی بہادری اور شجاعت، بے باکی اور جرات و ہمت کے جھنڈے پوری دنیا میں کامیابی سے گاڑے۔ ترک قوم جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اپنی تاریخ، تہذیب کلچر ثقافت مذہب اور روایات کو نہیں بھولی۔ ترکوں نے آج بھی اپنی قدیم روایتوں کو اپنایا ہوا ہے ۔کیوں کہ ان کی تاریخ میں سلطان محمد فاتح سپہ سالار جیسی ہستیوں کی تاریخ موجود ہے، جنہوں نے اپنی جرات اعتماد دور اندیشی اور خدا پر بھروسے سے 1453 میں استنبول فتح کر کے جنت کی بشارت حاصل کی اور اسلام کا جھنڈا رومی سلطنت کے مرکز پر لہرا کر پیغمبر اسلام حضور اکرم ﷺکی عظیم خوش خبری اور خوشنودی کے حصول کو ممکن بنایا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ترک قوم کی کامیابی کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ جد ت کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی سے بھی رشتہ جوڑے ہوئے ہے سیکولرازم سازشوں اور بے انتہا آزمائشوں کے باوجود ہمیشہ ثابت قدم رہی اسلام کی خد مت بھی ترکوں کو ورثے میں ملی جو ان کے دلوں اور سینوں میں صدیوں سے قائم ہے۔ ترک قوم دین ِ اسلام سے والہانہ محبت رکھتی ہے۔ یہ لوگ انتہائی خلوص و خضوع سےسچے جذبے و سچے دل سے عبادت کرتے ہیں، ترک قوم بہادر، نڈر ،جرات مند بے باک اور شجاعت کی خوبیوں سے مالا مال ہے ترک قوم مصیبتوں میں گھبرانے والی نہیں بلکہ حق اور سچ کے ساتھ حالات کا ڈ ٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔
ترک ملت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے مؤقف کو انتہائی مضبوطی اور مہارت سے ثابت کرتے ہیں۔ یہ وعدے کی پکی ایماندار اور صاف گو قوم ہے ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ ترک قوم انتہائی محبِ وطن قوم کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے۔ ترکی سے محبت اور قوم کے لئے خلوص ترکو ں کے خون میں رچا بسا ہے ۔ترکوں کا پسندیدہ رنگ سرخ ہے جو کہ انہوں نے اپنے جھنڈے میں بھی شامل کر لیا ہے اسی لیئے سبزی ،پھل ،کھانے ،مشروبات ،لباس ،سب میں سرخ رنگ کو ہی ترجیح دیتے ہیں اگر ملک کسی حادثے سے دوچار ہوجائے تو پورا ملک اکٹھا ہو جاتا ہے ترک قوم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ترک انتہائی چاق و چوپند،خوش شکل ،خوبرو،دراز قد اچھی غذا کھانے والے خوش لباس ،صفائی پسند ہیں۔ در حقیقت ترک قوم ایک ہمدرد غریبوں کی خیر خواہ ،امن و امان کو پسند اور پیار کرنے والی قوم مانی جاتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے حقوق پر کسی کو با آسانی ڈاکہ ڈالنے دے اگر یہ قوم امن پسند ہے تو حالت جنگ میں بے حد جنگجو بھی یہی قوم ہے ۔
ترک قوم کبھی بھی کسی ملک کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹی اسی لیئے فلسطین ،کشمیر ،صومالیہ ، سوڈان ، کینیا، افغانستان ، عراق، لیبیا ، شام ،مصر،کے ساتھہ ساتھہ جاپان ، آسٹریلیا ، امریکہ ، اور یورپ، کے ممالک کے با شند وں کی بھی رنگ نسل زبان اور مذہب کی پرواہ کیے بغیر مصیبت کے وقت امداد کو پہنچتے ہیں۔ ترک مہمان نواز اور فراغ دل قوم کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہے۔ ظلم وتشدد کے خلاف بھی ترکی سب سے پہلے آواز اٹھاتا ہے جب بھی فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے ظلم ہوا تو ترکی نے ہمیشہ سر عام اسرائیل کے ظلم کی مخالفت کی۔ چونکہ ترک قوم اپنی غیرت و حمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتی اس لیے خود داری ،خود اعتمادی ،اور خود کچھ کر گزرنے کی قوم ہے ترک غلام پسندی کے خلاف ہیں دوسروں کا لحاظ اور پاس رکتے ہیں زندگی کے ہر شعئبے میں معیار اور کوالٹی پر سودے بازی نہیں کرتے بلکہ معیار کی جدت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں درحقیقت اسلام نے ترک قوم کو صحیح پہچان دی اسلام قبول کرنے کے بعد ترک قوم کی خوبیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا 600 سال تک اسلام کی تعلیمات دنیا کےکونے کونے تک پہنچا کر خلافت عثمانیہ کی بنیاد ڈالی جس نے یورپ کو ہمیشہ ڈرا کر رکھا یہ وہی یورپ تھا جو آج ہر نوجوان کی من پسند ہے لیکن ایک دور تھا کہ یورپ ترکی سے ترقی میں بہت پیچھے تھا اور آج بھی ترکی کامیابیوں میں یورپ کو پیچھے چھوڑتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ ترک اپنی فن تعمیر کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتا ہے اور جب بھی کوئی شاہکار تخلیق کرتا ہے تو اپنی عادت اور نسلی ورثے کے تحت اعلی اور معیاری تخلیق کو جنم دے کر دنیا میں اپنی رویات کو برقرار رکھتا ہے۔ جیسے موجودہ دور میں ترکی د نیا کا سب بڑا ہوا ئی اڈہ تیار کرنے ارادہ کر چکا ہے۔ جسے جلد مکمل کر کے وہ اپنی نسلی ، روایات کو برقرار رکھے گا۔ترک کرد قوم سے تعلق رکھتی ہے لیکن اسلام پر عمل پیرا ہونے کے بعد ترک قوم کی قمست کو چار چاند لگ گئے اور اسلام کی خدمت ہی وہ راز تھا جو ترک قوم کو بے پناہ خوبیوں سے نوازتا گیا اگر ترک قوم اسلام کو نہ اپناتی تو شائد وہ آج صحرائے گوبی یا منگولیا کے چولستانوں میں اور بیابانوں میں چرواہوں کی گمنام زندگی جی رہے ہو تے اور د نیا ایک جی دار ،غیور ،اور ملنسار محبت کرنے والی قوم سے ناآشنا رہتی
محمد ناصر اوپل


ٹیگز:

متعللقہ خبریں