ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 33

ترکی میں صدارتی انتخابات اور ایردوان کی شاندار فتح

105548
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 33

جب سے ترکی کی وزارت رجب طیب ایردوان نے سنبھالی ہے ترکی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں تو ترکی اور پاکستان کی دوستی کوئی نئی نہیں لیکن رجب طیب ایردوان کے دورِ حکومت میں پاک ۔ترکی دوستی کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے رجب طیب ایردوان جتنے ترکی میں مقبول ہیں تقریباً اتنے ہی مقبولیت ان کو پاکستان بھر میں بھی حاصل ہے۔ یہ ترکی کے پہلے وزیر اعظم ہیں جن کو عوام نے اوپر تلے تین مرتبہ ترکی کا وزیر اعظم منتخب کیا اور اب ترک عوام ان کو صدر کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔
صدارتی امید واروں نے ترکی بھر میں انتخابی مہمیں چلائیں۔ وزیر اعظم ایردوان نے اس دوران کہا تھا کہ اگر مجھے صدارت کے منصب پر فائز ہونے کا موقعہ ملا تو دنیا بھر کے ملکوں سے نہ صرف تجارتی بلکہ سفارتی تعلقات کو مزید فروغ دے کر ترکی کو مزید ترقی سے ہمکنار کریں گے، بد قسمتی سے اسرائیل نے فلسطین میں نسل کشی شروع کر رکھی ہے اور ایک دہشت گرد ریاست کاروپ دھار کر مسلم دینا کی نفرت کو کماتا جارہا ہے ۔اسرائیل کی بمباری کے خلاف جتنا ترکی نے احتجاج کیا ہے کسی مسلم ملک نے نہیں کیا ایک طرف رجب طیب ایردوان اپنے صدارتی الیکشن کی سرگرمیوں میں مصروف رہے تو دوسری جانب ترکی کے موجودہ صدر عبداللہ گل اور ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر جمیل چیچک چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اوزیل اور وزیر داخلہ اور وزیر قومی دفاع یلماز نے ان 79 فوجی افسران کو ڈگریاں پیش کی ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ترکی میں جمہوری نظام پر کس طرح عمل کیا جاتا ہے کوئی کسی لیڈر کی ٹانگ نہیں کھینچتا ۔
ترکی نہ صرف پاکستان کے ساتھہ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے لیے صحیح معنوں میں امن کا سفیر بھی ہے اس کا منشو ر ہے کہ دنیا بھر میں امن و امان کا بول بالا ہو۔ مثال کے طور پر غزہ کی عوام نے یہ عید ایک وحشت اور بر بریت کے ماحول میں منائی۔ جس نے پوری مسلم اُمہ کو شدید دکھ پہنچایا۔ طیب ایردوان مسلم دنیا کے وہ واحد لیڈر ہیں جو اسرائیل کے خلاف دھڑکے سے کھل کر بیان دیتے ہیں۔ جس طرح ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی تھی اسی طرح اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے ہٹلر کے دور کا بدلا لے رہا ہے، اسرائیل خاص طور پر خواتین اور بچوں کو شہید کر رہا ہے کہ کہیں یہ عورتیں اپنی آئندہ کی نسل کو جنم نہ دے سکیں اور بچوں کو اس لیے مار رہا ہے کہ یہ بڑے نہ ہو سکیں کہ کہیں یہ بڑے ہو کر وطن کا دفاع کر نے کے لیئے خود کو نہ تیا ر کر لیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ترکی کی نظر ہر ملک کی بدلتی حالت پر ہے تو غلط نہ ہو گا، ایک طرف ترکی بے گناہ فلسطنیوں کی حمایت میں آواز اٹھا رہا ہے تو دوسری طرف ترکی کے ایک فلاحی ادارے نے اس رمضان المبارک میں دنیا کے 46 ممالک میں 56 ہزار لوگوں کو افطار 30 ہزار افراد کو کھانے پینے کا سامان دے کر اور 500 خاندان کی کفالت کا اعلان کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ترکی کی نظر، دنیا میں اور ہر جگہ اور ہر شعبے پر ہے۔سن 1975 میں دیانت فاؤنڈیشن یعنی محکمہ مذہبی امور قائم ہوا۔یہ فلاحی تنظیم بھی فخر ترکی کا حصہ ہے۔
ترکی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں تین صدارتی امید واروں نے حصہ لیا۔ اور اس بار ملک کے 12 ویں صد ر کا انتخاب 10 اگست کو براہ راست ترک عوام اپنے ووٹوں سے کیا۔ ترک قوانین کے مطابق جو امید وار 50٪ سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی امید وار پہلے مرحلے میں مقررہ تعداد 50 ٪ ووٹ حاصل نہیں کر سکتا ہے تو پھر الیکشن کا دوسرا مرحلہ اُن دو امید واروں کے درمیان ہوتا ہے جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لیے ہو ں۔لیکن ان انتخابات میں اس چیز کی نوبت ہی نہیں آئی اور صدارتی امیدوار جناب ایردوان صاحب 51.8 فیصد ووٹ لیتے ہوئے ترکی کے بارہویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
یہ انتخابات اس لیے بھی اہم رہے ہیں کہ ان کے بعد ملک کا سیاسی اور انتطامی نظام جو کہ اس وقت پارلیمانی ہے اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے کو تبدیل کرتے ہوئے صدارتی نظام کے قیام کا احتمال قوی دکھائی دیتا ہے۔ جس کے بعد حکومت کا سربراہ وزیر اعظم کی بجائے صدر بن جائے گا، 77 ملین آبادی والے ملک ترکی کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے ترکی کی ملکی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل اپنے عروج پر رہی۔ جس پر نہ صرف ترک میڈیا نے بلکہ بین الااقوامی میڈیا نے بھی خاصی گہری نظر رکھی۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ ترک قوم نے پہلی بار صدر کا چناؤ اپنے ارادے سے براہ راست کیا ہے، جس سے سیاسی اور سماجی بہبود کو معمول کی سطح پر آنے اور معاشرتی رفاہ کے معیار کو مزید فروغ ملے گا۔ نیا ترکی ایک عظیم ترکی بنے گا۔ نئی قیادت، نیا نظام ترکی کو عالمی سطح پر ایک عظیم طاقت کا درجہ دلانے کا وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ صدارتی انتخابات میں امید وار اکمل الدین احسان اولو نے بھی حصہ لیا۔ جو 26 دسمبر سن 1943 میں قاہرہ میں پیدا ہوئے، مصر میں ہدویہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے بعدانہوں نے عین شمس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس سے اعلی تعلیم حاصل کی۔آپ نے سن 1970 میں ترکی کو واپسی اختیار کی اور انقرہ میں فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔ 1974 میں انہوں نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ فنون لطیفہ سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد بر طانیہ کی ایکزیڑیونیورسٹی سے مزید اعلی تعلیم حاصل کی۔ 1980 میں اسلامی تعاون تاریخ و فن و ثقافت پر مبنی ایک تحقیقاتی مرکز قائم کیا اور اس ادارے کی صدارت کی، 1984 میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہ فنون لطیفہ میں بطور پروفیسر فرائض انجام دیے بعد ازاں 2004 تا 2014 اسلامی تعاون تنظیم میں بطور سیکریڑی جنرل کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔ دوسرے صدارتی امید وار صلاحتین ویمر تاش تھے جو کہ ترکی میں ایک طرز ِ فکر کو عام کرنے کے دلدادہ ہیں۔ ان کے نزدیک کردی مسئلے کا حل ترکی کے جمہوری نظام میں ہی پوشیدہ ہے۔انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اس امر کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ ہر کسی کو اپنی مادری زبان میں عبادت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔صلاحتین دیمر تاش 10 اپریل 1973 کو ایل آزی کی تحصیل پالو میں پیدا ہوئے، آپ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ دیمرتاش نے یکم فروری 2010 کو امن و ڈیمو کریسی پارٹی کے شریک چیئر مین کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
یہ تو تھا دیگر دو صدارتی امیدواروں کا مختصراً تعارف ۔لیکن طیب ایردوان کسی تعریف کے محتاج نہیں کیونکہ انہیں نہ صرف دنیابھر جانا پہچانا جاتا ہے کہ بلکہ ان کے لیے عالمی معاشرے میں ایک خاص احترام اور مقام بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ان کے صدر منتخب ہونے میں کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں تھا اور ایسا ہی ہوا۔ حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام نے بھی طیب ایردوان کی جیت کی ہی تمنا کی تھی کیونکہ ان کے نام سے پاکستان کا بچہ بچہ بھی واقف ہے۔ انتخابات کے عبوری نتائج کے اعلان کے فوراً بعد ہی پاکستانی قیادت نے نو منتخب صدر جناب رجب طیب ایردوان کو پاکستانی عوام کے نام پر تہنیتی پیغامات دیے اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔جناب ایردوان کو دلوں کو فتح کرنے کا فن بخوبی آتا ہے جس کا واضح طور پر اظہار حالیہ انتخابات سے بھی ہوتا ہے۔ وزارت عظمی کے دور کی طرح پاک ترک دوستی میں اب ان کے دورِ صدارت میں بھی مزید نکھار آنے کا کہنا غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ ایردوان کا دوسرا نام پاک ترک دوستی کا مضبوط ستون بھی ہے۔
تحریر محمد ناصر اوپل


ٹیگز:

متعللقہ خبریں