ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 25

اسلامی مملکتوں کا لیڈر کون؟ ترکی یا پاکستان!

118812
ترکی اور پاکستان  کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 25

ترکی اسلامی دنیا کا لیڈر ہے یا پاکستان اگر ترکی کی ترقی کو دیکھیں تو لگتا ہے ترکی اسلامی دنیا کا لیڈر ہے اور اگر اسلامی جوہری طاقت کی بات کریں تو پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی اسلامی دنیا کا لیڈر مانا جاتا ہے۔ ترکی کی ترقی اور سیاسی قیادت نے ترکی کو ایٹمی طاقت تو نہ بنایا لیکن دنیا کے لیے رول ماڈل بنا کر اس طرح پیش کیا ہے۔ اب ہر ملک ترکی جیسی ترقی چاہتا ہے لیکن پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ترکی جیسی ترقی نہ کر سکا جس کے پیچھے کئی کہانیاں اور کئی کردار ہیں۔
ترکی پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ پاکستان سے بھی برے حالات کا سامنا ترکی نے کیا لیکن ترکی نے ہمت نہ ہاری اور ایسی سیاسی اور معاشی ایسی پالیسیاں بنائیں کہ ترکی نے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابیاں حاصل کیں۔ کیا ترکی اسلامی دنیا کا لیڈر ہے اس پر بھی 2 گروپوں میں نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک گروپ کہتا ہے کہ فی الحال اس چیز پر تبصرہ کرنا جلد بازی سے کام لینے کے مترادف ہو گا جبکہ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ اب اس چیز کا وقت آن پہنچا ہے ۔ اسلام پسند طاقتوں نے حالیہ برسوں میں جو انگڑائی لی ہے وہی لیڈر شپ کا حق رکھتا ہے ۔ سعودی عرب ،ایران، پاکستان ،انڈونیشیا ،ترکی ،مصر، سوڈان اور لیبیا وہ ممالک ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اسلامی دنیا میں اہم شناخت رکھتے ہیں پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور خانہ جنگی کی حالت میں ہے حالانکہ وزیر اعظم نواز شریف ملک کو بحران سے نکالنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو اس کی خارجہ پالیسی امریکہ کی محتاج ہے اس لیے سعودی عرب کے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں جیسے کے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ بلکہ سعودی عرب کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا اپنے برابر کے پڑوسی ممالک کے ساتھہ بہتر تعلقات رکھنے میں ہے کیونکہ ابھی تک سعودی عرب عرب تعاون کونسل کے ساتھ ملکر عرب مرکزی بنکھ قائم نہیں کر سکا جو کہ کئی سالوں سے زیر غور ہے اس سلسلے میں متحدہ عرب امارت کی یہ خواہش ہے کہ عرب بینک کا مرکزی صدر دفتر ابو ظہبی میں ہو جبکہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ اس بینک کا صدر دفتر ریاض میں ہو نا چاہیے۔ اس کے علاوہ جس طرح یورپ میں یورپی کرنسی یورو کا راج ہے عرب ممالک بھی چاہتے ہیں کہ مشترکہ عرب کرنسی بھی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ معاملہ بھی درد سر بنا ہواہے کیونکہ عرب ممالک کی کرنسیوں کی قدر و قیمت میں کافی زیادہ فرق ہے۔ ادھر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہتے ہیں۔ ایران کا قائدانہ کردار مذہبی اختلافات کی وجہ زیر بحث رہتا ہے۔ جبکہ مصر کمزور اور بری اقتصادی حالت میں ہے کیونکہ مصر کا جھکاؤ امریکہ کی جانب زیادہ ہے ۔ عرب۔ اسرائیل جھگڑے کی وجہ درمیان میں امریکہ ہے، سوڈان اور پاکستان کو داخلی بدامنی کے مسائل کا سامنا ہے پاکستان اور سوڈان میں یہ صلاحیت ہے کہ اسلامی دنیا کا لیڈر کا کردار ادا کرسکیں لیکن ان کے موجودہ حالات نے رخ کسی اور ہی جانب موڑ دیا ہے۔ لیبیا اپنے دور کا افریقہ کا دھاڑتا ہوا شیر تھا جو کہ عالمی سازشوں کی وجہ سے اکیلا کر دیا گیا کیونکہ مغربی ممالک کو لیبیا کی یہ دلیری پسند نہ تھی۔ انڈونیشیا میں ایسی کوئی تحریک نظر نہیں آتی کہ وہ مسلم دنیا کی رہنمائی کرے حالانکہ انڈونیشیا میں بھی اسلام پسند حلقے اچھا خاصہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ نتیجتاً اب صرف ترکی ہی ایسی حالت میں نظر آتا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کی قیادت کر سکے مصطفی کمال اتا ترک نے سیکولر ترکی کی بنیاد ڈالی اور ہر ممکنہ سیکولر آئینی تحفظ مہیا کیا لیکن اس کے باوجود ترکوں کے دل سے اسلام کی محبت نہ نکل سکی 1969 میں ڈاکٹرنجم الدین اربکان نے ایک نظریہ پیش کیا جسے قومی منظر کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد ترکی کی اسلامی فلاحی بنیادوں کو مضبوط بنانا تھا ۔ جس کی جڑیں ترکی آج کی برسر اقتدار پارٹی سے ملتی ہیں اس منشور کو اسلام پسند نوجوانوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہو ئی اور ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور پھر اسی منشور کو ڈاکٹر نجم الدین نے 26جنوری 1970 کو ایک سیاسی جماعت ملی نظام پارٹی میں بدل دیا 20مئی 1971 کو آئنین عدالت نے اس جماعت پر پابندی لگا دی تو ڈکٹر نجم الدین اربکان نے 11 اکتوبر کو ایک اور سیاسی جماعت بنا ڈالی اس جماعت نے 1973 کے انتخابات میں ٪ 11.8 ووٹ حاصل کیے۔ 1977 کے انتخابات میں یہ جماعت مخلوط حکومت میں شامل ہو گئی لیکن 1980 کے فوجی اقتدار نے اس حکومت کو ختم کر دیا دوبارہ اسی پارٹی نے 1983 میں رفاہ پارٹی بنا لی وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا، 1995 میں نجم الدین اربکان پھر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک بار پھر 1997 میں فوج کی حکومت نے اسے ختم کردیا اور اسلامی ایجنڈے پر عمل کرنے کے جرم میں ڈاکٹر نجم الدین اور رفاہ پارٹی پر پابندی لگا دی اور ڈاکٹر نجم الدین اربکان پر سیاست میں حصہ لینے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے وہ ارکان جو رفاہ پارٹی کے بچ گئے تھے انھوں نے مل کر 1998 میں فضلیت پارٹی کے نام سے نئی جماعت کا اعلان کر دیا جون 2001 میں عدالت نے اس پر بھی اسلام پسندی کا لیبل لگا کر بند کر دیا ترکی کے مو جودہ وزیر اعظم بھی اس پابندی کی زد میں آئے تھے۔ انہیں 10ماہ کے لیے سیاست میں آنے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ کہ انھوں نے ایک جلسے کے دوران ایک نظم کہی تھی۔
فضلیت پارٹی پر پابندی کے بعد اس جماعت سے مزید 2 گروپ نکلے۔ایک اعتدال پسندوں کا جس کی قیادت عبداللہ گل اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طبیب اردوان کر رہے تھے اور دوسرا گروپ سخت مؤقف رکھنے والے ارکان کا ۔2002 میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے اپنی اسلام پسندی اور معتدل پالیسوں کی وجہ سے کامیابی حاصل کی اس وقت طبیب ایردوان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔اس لیے عبداللہ گل کو وزیر اعظم بنایا گیا اور پابندی ختم ہونے کے بعد طبیب اردگان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اسی جماعت کو 2007 میں دوبارہ کامیابی ملی اور دوسری مرتبہ بھی وزیر اعظم کا عہدہ طبیب اردگان نے سنبھالا۔ اہم بات یہ کہ ترک عوام نے معتدل مزاج اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو زیادہ پذیرائی دی۔ طیب ایردوان غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ترک معاشرے کو بہت نچلی سطح سے دیکھا ہے وہ اپنے لڑکپن میں گرمیوں میں اپنا جیب خرچ پورا کرنے کے لیے چھوٹے موٹے کام بھی کر لیا کرتے تھے، ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے۔ آپ مذہبی تعلیم دینے والے ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے، وہ اب تک مختلف حیثیتوں سے 20عالمی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں اور دنیا کی گیارہ یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکڑیٹ کی اعزازی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ اس حکومت کی پالیسوں کی وجہ سے ترکی میں افراط زر کی شرح پچھلے 30سال میں سب سے کم ہے۔ترکی میں اس سیاسی تبدیلی کو ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ترکی چونکہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اس لیے ترکی دوسرے اسلامی ملکوں سے بہتر انداز میں یورپ کو سمجھتا ہے۔ اس وقت ترکی دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے ۔ ترکی کے مشرق بعید، وسطی ایشیا مشرق وسطی اور افریقہ کے مسلم ممالک بہتر تعلقات ہیں ۔2009 کے آغاز میں شائع ہونے والی نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتاب اگلے سو سال اکسیویں صدی کی پیشن گوئی میں جارج فرایئڈ مین لکھتا ہے کہ ترکی 2050تک سلطنت عثمانیہ کی حیثیت دوبارہ اختیار کر جائے گا جبکہ انٹر نیشنل میڈیا کی بھی یہی رائے ہے کہ ترکی ہی وہ واحد اسلامی ملک ہے جو ایک رہنما کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
در حقیقت ترکی کو یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے بہت مایوسی ہوئی ہے اس وجہ سے اس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نظر آتی ہے موجودہ ترک حکومت کے لیئے سب سے بڑا معاملہ اپنی سیکولر فوج ہے ترکی میں اسلام پسندوں کے خلاف فوج کی کاروائیاں اور حکومت کو اپنے ہاتھوں لینا کوئی نیا کام نہیں۔ 1997 میں ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی حکومت اسرائیل سے اسلحہ ڈیل ختم کرنے اور ایران سے دفاعی معاہدہ کرنے جیسے معاملات فوج نے ہی ختم کرائے تھے لیکن اس وقت جو رائے عامہ بن چکی ہے ترک فوج اسے نظر انداز نہیں کر سکتی فوج بھی نہیں چاہے گی کہ وہ اقتدار میں آئے اور ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں کو دھچکا لگے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور اس کے زیر اثر ممالک کی طرف سے بھی ترکی کے ابھرتے ہوئے کردار کو سرد مہری کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھہ ساتھ امریکہ اور یورپ کی بھی کوشش ہے کہ ترکی مزید ترقی نہ کرے تاکہ وہ ماضی کا سلطنت عثمانیہ بن کر یورپ کے سامنے سراٹھا کر نہ کھڑا ہو جائے اسکی دلیل یہ ہے کہ ابھی سے فرانس اور جرمنی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کہ ان کی مسلسل مخالفت نے اسے اسلامی ممالک کے قریب کر دیا ہے ممکن ہے کہ ترکی کو دبانے کے لیے کردوں کا مسلئہ زیادہ شدت سے اچھالا جائے کیونکہ موساد اس کے لیے بھر پور کوشش کرے گی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انڈونیشیا ،ملائشیا، ایران ،پاکستان ،لیبیا ،سوڈان ، شام ،اردن، اور خاص کر سعودی عرب ترکی کا ساتھ دیں اگر مسلم ممالک نے ترکی کو سپورٹ نہ کیا تو ممکن ہے یورپ اور امریکہ اسے دوبارہ کھینچ کر اسلامی دنیا سے دور کر دیں اور خدانخواستہ ترکی میں لیبیا جیسے حالات پیدا کر کے ترکی کو پھر پہلے جیسے حالات کی جانب موڑ دیں کیونکہ یورپ کو آج بھی وہ سلطنت عثمانیہ یاد ہے جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یورپ لرزتا تھا اس لیے امریکہ اور یورپ ترکی کی ترقی سے خائف ہیں کہ ترقی کی جو رفتار ترکی نے اپنائی ہے کہیں یہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کا جنم تو نہیں !
تحریر: محمد ناصر اوپل


ٹیگز:

متعللقہ خبریں