پاکستان کے عوام بعض کرپٹ خاندانوں کو بچانے کے بہانے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے: عمران خان

پیر کو وزیراعظم آفس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی خاندان کی بدعنوانی کو بچانے کے لئے دنیا میں کبھی بھی کوئی عوامی تحریک برپا نہیں ہوئی

1170500
پاکستان کے عوام بعض کرپٹ خاندانوں کو بچانے کے بہانے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے: عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کی طرف ملین مارچ کی کال کو رد کرتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے عوام بعض کرپٹ خاندانوں کو بچانے کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے۔

 پیر کو وزیراعظم آفس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی خاندان کی بدعنوانی کو بچانے کے لئے دنیا میں کبھی بھی کوئی عوامی تحریک برپا نہیں ہوئی‘ اپوزیشن کی طرف سے ملین مارچ سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ساڑھے چار ماہ احتجاج کیا لیکن یہ مسائل کے خلاف احتجاج تھا جبکہ دوسری جانب اپوزیشن اپنی منی لانڈرنگ کے مقدمات پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اور بعض علاج معالجہ کی آڑ میں چھپنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے سامنے طویل دھرنے کے لئے اپنے خصوصی تیار کردہ کنٹینر کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی تھی اور بعد ازاں پانامہ پیپر کے مسئلہ پر احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنی بنی گالا پراپرٹی کے طویل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے طلب کردہ ہر دستاویز فراہم کی جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعظم نے ادنیٰ ثبوت بھی فراہم نہیں کیا جس سے ثابت ہو کہ ان کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ قومی احتساب بیورو کی طرف سے جاری مقدمات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کا پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیسز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کیسز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2016ءمیں شروع کئے تھے۔

 انہوں نے کہا کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، ایان علی کی گرفتاری کے تناظر میں جعلی بینک اکاﺅنٹس کی چھان بین کرنا چاہتے تھے جو غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نیب نچلی سطح پر بدعنوانی کے اکا دکا کیسز کی بجائے کرپشن میں ملوث بڑے آدمیوں کو ہدف بنائے۔ انہوں نے کہا کہ آپ صرف اسی صورت بدعنوانی کو ختم کر سکتے ہیں جب آپ بڑے آدمیوں کو پکڑیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی قومی احتساب بیورو کے ساتھ اسی مسئلے کو اٹھایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا سابق وزیراعظم نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دی جائے گی تو وزیراعظم نے کہا کہ کس قانون کے تحت انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ لاکھوں قیدی مختلف جیلوں میں ہیں اور انصاف ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر حضرت محمد کی حدیث کا بھی حوالہ دیا جہاں آپ نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرے میں طاقتور کو کمزور پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

 عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں تقریباً 30 سال برسراقتدار رہی اور اس نے اپنی سیاسی اشرافیہ کے علاج کی سہولت کے لئے ایک بھی ہسپتال قائم نہیں کیا۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اپنی فیکٹریاں اور کاروباری ایمپائر تو قائم کر سکتے ہیں لیکن ہسپتال نہیں بنا سکے۔ وزیراعظم نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور شریف خاندان کے دیگر ارکان کی مثالیں پیش کیں جنہوں نے اپنا طبی معائنہ اور علاج معالجہ ہمیشہ بیرون ملک سے کرایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں بلیک میل نہیں ہوں گا کہ پاکستان میں کوئی ڈاکٹر یا ہسپتال نہیں جہاں مطلوبہ علاج فراہم نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ بہترین ممکنہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت 27 مارچ کو ملک کے سب سے بڑے جامع تخفیف غربت منصوبے کا آغاز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین سے تجاویز کے ساتھ وہ ملک میں غربت سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے کردار کے حوالے سے وزیراعظم نے افسوس ظاہر کیا کہ حزب اختلاف جمہوریت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ وہ چاہتی ہے کہ بدعنوانی کیس میں نیب کا ملزم پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا سربراہ ہو اور وہ اپنے غلط کاموں پر پردہ ڈالنے کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے پیسوں سے پارلیمنٹ کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں اور قوم کو ہر منٹ پر 80 سے 90 ہزار روپے لاگت پڑتی ہے۔ وزیراعظم سے جب ان کی کابینہ کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کابینہ کے اتنے زیادہ اجلاسوں میں شریک ہو چکے ہیں جتنے میں محمد نواز شریف اپنے پانچ برسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ جب ان سے وزرائے اعلیٰ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی کارکردگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو عمران خان نے کہا کہ وہ (وزرائے اعلیٰ) عوام کے مسائل کو سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کیا جا رہا ہے جو 30 سال تک اقتدار میں رہے اور صوبے کو اربوں روپے کے نقصانات اٹھانا پڑے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں موقع دیں، وہ ہمارے مشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی کارکردگی اطمینان بخش ہے۔

 عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت کو 30 ہزار ارب روپے کے قرضے ورثے میں ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو 15 ہزار ارب روپے اور پی پی پی کو 6 ہزار ارب روپے کے خسارے کا سامنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 6 ہزار ارب روپے کی رقم 1947ءسے ملک کے مجموعی قرضوں کے برابر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم آفس کے اخراجات میں 35 کروڑ روپے کی کمی لائی، وہ بنی گالہ میں اپنی نجی رہائش میں منتقل ہوئے اور تنخواہیں و اخراجات اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ان کی رہائش گاہ کے اردگرد جنگلہ کی تعمیر کیلئے اپنے طور پر 60 لاکھ روپے جمع کئے جبکہ وہ زمان پارک رہائش کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کا موازنہ لاہور میں پانچ چیف منسٹرز ہاﺅسز اور رائیونڈ میں عالی شان محلات سے کرنے کی ضرورت ہے جن پر سرکاری خزانہ سے رقوم خرچ کی جا رہی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان جن کے ہمراہ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین، وزیر خزانہ اسد عمر، چیئرمین ٹاسک فورس برائے شعبہ توانائی اصلاحات ندیم بابر موجود تھے، نے کہا کہ حکومت نے معیشت کی بحالی بالخصوص توانائی کے شعبہ کے گردشی قرضہ میں کمی کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت میں پیشرفت ہوئی ہے اور دونوں اطراف نے اپنے نکتہ نظر کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، آج ہم آئی ایم ایف کے بہت قریب تر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پوزیشن میں تبدیلی آئی ہے جبکہ حکومت پاکستان اپنے مو¿قف پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دوران آئی ایم ایف نے بتایا کہ ان کے معاہدوں کی شرائط 2008ءاور 2013ءسے نرم تر ہیں جبکہ اس وقت صورتحال آج سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پاس ساڑھے چار ماہ کے ذخائر تھے، مسلم لیگ (ن) کے پاس سات ماہ اور 21 دن کے ذخائر جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس صرف 15 روز کے ذخائر تھے۔ انہوں نے کہا کہ نئی آئی ایم ایف سربراہ منگل کو پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں لیکن یہ باضابطہ بات چیت کیلئے نہیں ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے اپنی درآمدات کو کامیابی سے کم کیا ہے اور اسے 72 فیصد تک لے کر آئی ہے اور وہ ملکی معیشت کو چلانے کیلئے بہتر حالت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نادرا، ایف بی آر، پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کے درمیان قریبی ہم آہنگی پائی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ محصولات پیدا ہوں اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت ملے۔ ندیم بابر نے قدرتی گیس کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں گیس کی تلاش کیلئے ایک بھی لائسنس جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی فیلڈز کو پیداوار میں پانچ سے سات فیصد کمی کا سامنا ہے اور حکومت نے 10 نئے بلاکس ٹینڈر کئے ہیں جن میں سے 6 پر کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ 30 پر مزید کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے دسمبر اور جنوری میں اضافی ایل این جی درآمد کرنا پڑی۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان 1400 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر ایل این جی حاصل کر رہا ہے جبکہ یہ 610 روپے ایم ایم بی ٹی یو پر فروخت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 50 فیصد سے زائد سبسڈی دے رہی ہے، حکومت بعض دیگر ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے اور موجودہ معاہدہ سے 20 فیصد کم قیمت پر ایل این جی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نئے معاہدوں سے اربوں ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ ندیم بابر نے کہا کہ ”ایگزون“ کی طرف سے آف شور تیل و گیس کی جاری تلاش سے بہت زیادہ امیدیں ہیں، اس کی کامیابی کیلئے ہمیں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے۔ زائد گیس بلوں کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ اگلے سلیب کی زیادہ شرح پر گیس نرخوں کے معاملہ کو درست کر لیا گیا ہے، ماضی کے برعکس جب وفاقی بجٹ میں مختص کئے بغیر سبسڈیز دی جاتی تھیں، اب وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ سبسڈی اسی صورت میں دی جائے گی اگر بجٹ میں اس کیلئے مناسب طور پر رقم مختص کی گئی ہو۔ بجلی کے شعبہ کی کارکردگی کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ملک میں 3700 میگاواٹ اضافی بجلی کی پیداوار کا بندوبست کیا گیا لیکن ناقص ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کی بناءپر اپنے صارفین کو بجلی پہنچانے سے قاصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیفالٹرز سے 42 ارب روپے بازیاب کرائے گئے ہیں اور چوری میں ملوث 20 ہزار ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ خسارہ جات میں 2 فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ساڑھے چار روپے فی یونٹ ٹیرف اضافہ کی منظوری نہیں دی، حکومت نے بجلی صارفین کیلئے سمارٹ میٹرز کا آغاز کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور موجودہ میٹرز چار سے پانچ سال میں تبدیل کر دیئے جائیں گے۔

 

 



متعللقہ خبریں