قرضہ واپس نہ کرنے والوں کے اثاثے فروخت کرکےرقم حاصل کی جائے، کسی کو کوئی چھوٹ نہ دی جائے:چیف جسٹس
چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا ہمیں بتا دیں وہ رقم واپس کیسے آسکتی ہے۔ جس پر گورنر سٹیٹ بینک نے جواب دیا ٹی او آر میں یہ بات شامل ہے کہ غیر قانونی طریقے سے منتقل رقم واپس کیسے لائی جائے
قرضہ معافی کیس میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے جن لوگوں نے قرض معاف کرائے، ان سے وصول کریں گےاگر رقم نہیں تواثاثے فروخت کر کے رقم وصول کریں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے ، کوئی اندازہ ہے کہ کتنے ارب معاف ہوئے؟ جس پر نیشنل بینک کے وکیل نے بتایا چون ارب معاف ہوئے، کمیشن کاکہنا ہے قصہ ماضی ہے ، بینک پیسے کی واپسی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مقدمات پرانے ہوگئے اسی لیے کھول رہا ہوں، سیاسی بنیادوں پرمعاف قرضوں کی تفصیلات کہاں ہیں، 22مشکوک مقدمات ہیں ، نیشنل بینک نےٹیکسٹائل ملوں کےبہت زیادہ رقوم کےقرض معاف کیے، جب سے یہ رپورٹ آئی ہے اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا ہمیں بتا دیں وہ رقم واپس کیسے آسکتی ہے۔ جس پر گورنر سٹیٹ بینک نے جواب دیا ٹی او آر میں یہ بات شامل ہے کہ غیر قانونی طریقے سے منتقل رقم واپس کیسے لائی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا اصل سوال یہ ہے کہ جو رقم باہر منتقل ہوئی وہ واپس کیسے آئے گی، ہماری اس بات کو اہمیت نہیں دی گئی، ان لوگوں کی نشاندہی کرنی ہے جن کی بیرون ملک اکاؤنٹس اور املاک ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا یہ بات ٹی او آرز میں شامل نہیں تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2007 میں اربوں روپے قرضہ معافی پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس نے ایسا فیصلہ سنادیا جس سے قرضہ لے کر واپس نہ کرنے والے لرز اٹھے،اثاثے فروخت کرکے رقم اکٹی کی جائے گی