صدر ٹرمپ کا سکینڈل بیان، گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختیاری کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ علاقہ انتہائی اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی اور علاقائی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ہے

1168326
صدر ٹرمپ کا سکینڈل بیان، گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختیاری کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے بارے میں اسکینڈل بیان انہوں نے کل بیان دیتے ہوئے کہا کہ   گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلی کرنے کا وقت آ ن پہنچا ہے۔

یاد رہے کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقے ہے جس پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ علاقہ انتہائی اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی اور علاقائی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔

اسرائیل نے 1967 میں اس علاقے پر قبضہ کر کے 1981 میں اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیا تھا تاہم اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

ٹرمپ کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ابھی یروشلم میں ہیں۔ وہ پہلے اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار ہیں جنھوں نے یروشلم کے متبرک شہر کی متنازع ’ویسٹرن وال‘ کا دورہ کیا ہے۔ دورے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو اُن کے ہمراہ تھے۔

اس دورے سے یہ واضح اشارہ ملا کہ امریکہ اس یہودی متبرک شہر پر اسرائیلی کنٹرول کو تسلیم کرتا ہے۔ پھر فوری طور پر گولان ہائیٹس کو تسلیم کرنے کا ٹرمپ کا یہ خاص اعلان سامنے آیا۔

نیتن یاہو نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’گولان ہائیٹس‘ سے اسرائیل پر حملے کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اسی وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری گولان پر اسرائیلی قیام کو تسلیم کرے، اور یہ حقیقت کہ گولان ہمیشہ اسرائیل کی ریاست کا ایک حصہ رہے گا‘‘۔

امریکی صدارتی اعلان کے بعد اسرائیلی سربراہ نے فوری طور پر ٹرمپ کے فیصلے کی تعریف کی۔

صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد، نیتن یاہو نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ نے ایک تاریخ ساز بیان دیا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی حمایت پر ہم اُن کے انتہائی شکر گزار ہیں‘‘۔صدر ٹرمپ کے بیان پر شامی حکومت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم شام اس علاقے کی واپسی کا دعویٰ کرتا ہے۔

ادھر امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز کے صدر رچرڈ ہاس نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو نو اپریل کو انتخابات کا سامنا ہے اور ان پر کرپشن کے متعدد الزامات بھی لگائے جا چکے ہیں۔

2017 میں امریکہ سرکاری طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت سمجھتا ہے اور 2018 میں تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا۔

اس پر فلسطین اور عرب دنیا سے سخت ردِعمل سامنے آیا تھا۔ فلسطینی موقف ہے کہ مشرقی یروشلم ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو گا اور 1993 کے فلسطینی اسرائیلی معاہدے کے تحت یروشلم پر حتمی فیصلہ بعد میں ہونا ہے۔



متعللقہ خبریں