کشمیر میں کرفیو کا 25 واں روز، ظلم و ستم کا بازار گرم اور دنیا خاموش
خبررساں اداروں کے مطابق بھارت نے مقبوضہ وادی چنار میں وحشت و بربریت کی تمام حدود پار کرلی ہیں۔ گزشتہ 25 روز سے جاری کرفیو کے سبب قلت خورونوش قحط کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اسی قحط کی وجہ سے وادی کے نوجوانوں نے 500 سے زائد مظاہرے کیے ہیں
گزشتہ 25 روز سے مقبوضہ وادی کشمیر میں جاری مسلسل کرفیو کی وجہ سے کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے، ادویات کی قلت سے مریض جان بلب ہیں، اسپتالوں کی ناگفتہ بے صورتحال کے باعث نئے مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے جب کہ کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے ملنے والی ہدایت کے باعث ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر مریضوں کو واپس بھیجنا شروع کردیا ہے کہ حالات معمول پرآنے کے بعد آئیں۔
خبررساں اداروں کے مطابق بھارت نے مقبوضہ وادی چنار میں وحشت و بربریت کی تمام حدود پار کرلی ہیں۔ گزشتہ 25 روز سے جاری کرفیو کے سبب قلت خورونوش قحط کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اسی قحط کی وجہ سے وادی کے نوجوانوں نے 500 سے زائد مظاہرے کیے ہیں جن میں سے نصف صرف سری نگر میں کیے گئے ہیں۔
مقبوضہ وادی کشمیر کے کٹھ پتلی گورنر ستیاپال ملک نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے اب تک 36 کشمیری پیلٹس گنز کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کے اعترافی بیان کو مبصرین چوتھائی سے بھی کم سچ قرار دے رہے ہیں۔
مقبوضہ وادی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق چار ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں منتقل کرنے کے بعد وادی سے باہر بھی منتقل کیا گیا ہے جب کہ ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر پیلٹ گنز، گولیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کا اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بھارت کی قابض افواج، نیم فوجی دستوں اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کے دوران درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے ہیں اور ہر گزرتا دن ان کے زخموں کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہا ہے۔ اس بات کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ اگر زخمیوں کا فوری علاج نہ کیا گیا تو زخم ناسور کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔