جبتک مسئلہ کشمیرحل نہ ہوتاپاکستان اوربھارت کےدرمیان امن ممکن نہیں:پاک ترک فرینڈشپ چئیرمین علی شاہین

میں ترکی میں  اپنے آپ کو ایک پاکستانی سمھتا ہوں  اور ترکی میں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اپنا تن من دھن سب کچھ پاکستان پر قربان کرتا ہوں ، پاکستان  اور اُردو زبان سے سے مجھے گہری محبت ہے۔ تفصیلی انٹرویو کے لیے کلک کیجیے

1155165
جبتک مسئلہ کشمیرحل نہ ہوتاپاکستان اوربھارت کےدرمیان امن ممکن نہیں:پاک ترک فرینڈشپ چئیرمین علی شاہین

ترکی  کی پارلیمنٹ میں  ترکی- پاکستان  انٹر  پارلیمنٹری  فرینڈشپ گروپ کے چئیرمین  علی شاہین  نے ٹی آر ٹی  اُردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ   میں ترکی میں  اپنے آپ کو ایک پاکستانی سمھتا ہوں  اور ترکی میں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اپنا تن من دھن سب کچھ پاکستان پر قربان کرتا ہوں ، پاکستان  اور اُردو زبان سے سے مجھے گہری محبت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان بڑے درینہ اور تاریخی تعلقات چلے آ رہے ہیں دونوں ممالک مشترکہ مذہب،  ثقافت اور تاریخ کے مالک ہیں۔  دونوں کی دوستی اور بھائی چارہ خطے میں  امن  اور ترقی کے حصول کے اعتبار سے حیاتی اہمیت کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان یہ مشترکہ تعلقات ابھی تک تجارتی سطح پر اس نہج پر نہیں پہنچے  جس کی کہ توقع کی جا رہی ہے اور یہی دونو ں ممالک دونوں عالم اسلام کو مزید مضبوط اور طاقتور بنا سکتے ہیں۔

علی  شاہین نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اتنا پرانا مسئلہ ہے جتنا کہ اقوام متحدہ خود پرانی ہے۔اقوام متحدہ کے  قیام ہی سے مسئلہ کشمیر چلا آ رہا ہے اس مسئلے کو آج تک  اقوام متحدہ حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اقوام متحدہ کا ادارہ کیوں معرض وجود میں آیا؟  کیا یہ ادارہ جنگ روکنے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا؟  لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا اس کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔  جیسا کہ ترکی کے  صدر رجب طیب اردوان برملا کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ دنیا پانچ سے عظیم تر ہے لیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ پر پانچ ممالک کو اپنی ویٹو  پاور کی وجہ سے مکمل گرفت حاصل ہے۔ اس لئے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اقوام متحدہ میں نئے نظام  کو متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں۔  آپ نے دیکھا ہوگا سن   1948 ہی  سے مسئلہ کشمیر چلا آ رہا ہے اور پاکستان اور بھارت 3 بار اس مسئلے کی وجہ سے جنگ کر چکے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے منظم کیا جائے۔

علی شاہین  نے او آئی سی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے میں پاکستان اور ترکی دو نہایت ہی مضبوط ممالک ہیں  اور دونوں ممالک کو مل کر اس ادارے میں اہم تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک ہیں اس میں نیا  میکانزم قائم کرنے کے بارے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ اگر او آئی سی مضبوط ادارہ ہو گا تو مسلمان ممالک خود ہی اپنے مسائل آپ نے اس ادارے کے تحت حل کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ بھی اقوام متحدہ کی طرح اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان ترکی دونوں مل کر اسے ایک نیا رنگ و روپ عطا کریں اور نیا میکانزم  تشکیل دیں۔

 علی  شاہین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت 3 بار جنگ کر چکے ہیں اور کسی کو بھی ان جنگوں میں فتح حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ دونوں ہی کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اگر آپ بھی کوئی جنگ ہوتی ہے تو دونوں ہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔  اس لئے دونوں  ممالک کو اپنے تمام مسائل خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔  جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں کر لیا جاتا پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم نہیں ہوسکتا۔  پاکستان اور بھارت کا امن  خطے کا امن ہے۔  اسی لیے خطے کے  ممالک کو دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ضرورت ہے۔

 علی شاہین نے پلوامہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارت کو اس واقعہ کی چھان بین کرنے کی تجویز پیش کی ہے ترکی ہونے کے ناطے ہم اس سلسلے میں اپنا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہیں اگر بھارت اور پاکستان واقعہ کی چھان بین کے لیے کوئی بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے پر رضامند ہوتے ہیں تو ترکی اس میں جگہ پانے کے لیے تیار ہے۔

علی شاہین نے کہا کہ  اس قسم کی کشیدگی کے دوران کس کو فائدہ پہنچے گا اس پر ہمیں نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔  اس کشیدگی سے نہ ہی پاکستان اور نہ ہی بھارت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ فائدہ اٹھانے والے دوسرے ممالک ہوسکتے ہیں۔ علاقے میں غیر ملکی قوتوں کی پشت  پناہی حاصل کرنے والی دہشتگرد تنظیمیں دراصل سامراجی قوتوں  کی  آلہ کار ہیں اور یہ تنظیمیں ان سامراجی قوتوں  کے اشاروں پر علاقہ کو غیر مستحکم بنانے میں مصروف ہیں۔  پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ  عقل سلیم ہی سے اس  بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے اور  یہی  سب سے بڑی کامیابی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ   پاکستان اور بھارت دونوں کو اس بحران کو پائیدار امن کے قیام  اور دونوں ممالک کے  درمیان طویل عرصے سے حل نہ ہونے والے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے  ایک سنہری موقع کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔



متعللقہ خبریں