پاکستان ڈائری - 30 (عمران خان کا دورہ امریکہ)

عمران خان اداروں کا مکمل احترام کرتے ہیں اور انکو کو بھی بلاشبہ آرمی اور آئی ایس آئی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور وہ توازن سے معاملات چلا رہے ہیں اداروں کے درمیان چپقلش کے قائل نہیں

1241078
پاکستان ڈائری - 30 (عمران خان کا دورہ امریکہ)

پاکستان ڈائری - 30

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلی  قیادت ہمیشہ سے فوج سے خائف رہی ہیں جن میں پیپلز پارٹی پرویز مشرف اور ضیاء الحق کی وجہ سے فوج سے متنفر رہی اور مسلم لیگ نواز پرویز مشرف کی وجہ سے فوج سے دور ہوگئ۔ دور آمریت نے دونوں کو زخم دئے ۔حالانکہ مسلم لیگ نواز کا عروج ہی آمر کے دور سے ہوا اور پی پی کا عروج ایوب دور میں ہوا لیکن مخلتف آمریت کے ادوار نے بہت کچھ تبدیل کردیا ۔ یہ دشمنی پنپتی رہی اور میثاق جمہوریت کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اپنے طور پر تمام رنجیشیں ختم کردیں اور ایک دوسرے کو سکون سے باریاں حکومت کرنے دیں گے۔تاہم دونوں کے دل میں فوج سے خفگی ختم نہ ہوئی اور دونوں عالمی طور پر فوج کے خلاف شکایتیں کرتے رہے۔دوسری طرف فوج کی نئی قیادت خود پر سے آمریت کے داغ دھوتی رہی اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرتی رہی ۔

فوج بدل گئ اور اپنا فوکس ملک کی سیاست سے زیادہ دفاع پر مرکوز رکھنے لگی۔پی پی پی نے اپنے دور میں میمو گیٹ اور ن لیگ نے ڈان لیکس کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ دونوں فوج سے  اب تک شدید خائف ہیں اور اپنی ذاتی رنجشوں کو لے کر یہ قومی سلامتی کو بھی داو پر لگا سکتے ہیں ۔اب بھی یہ ہی ہورہا دونوں جماعتوں کے نوجوان نمائندے ہر اس چیز کو ہوا دیتے ہیں جو فوج مخالف ہو۔

عام انتخابات میں قوم نے پرانے چہروں کو مسترد کرکے نئی قیادت کو منتخب کیا اور عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔عمران خان نہ صرف عوام میں مقبول ہیں بلکے اس بات کا اندازہ انکے جی ایچ کیو کے پہلے دورے پر ہوا کہ وہ فوج میں بھی بہت مقبول ہیں اور ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔مسکراہٹوں کے درمیان ملاقات یہ بات عیاں کرگئی کہ اب سول اور ملٹری قیادت کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

ورنہ اس سے پہلے تو یہ عالم تھاکہ فوج اور حکومتی میٹنگز میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے چہرے کے سرد تاثرات سب نوٹ کرتے تھے۔اس کے ساتھ 23 مارچ کی پریڈ اور دیگر قومی تقریبات میں بھی وزیر اعظم نواز شریف اور صدر ممنون کے سپاٹ چہرے بہت سے سوال اٹھا جاتے تھے کہ سول ملٹری تعلقات کہاں کھڑے ہیں ۔یہاں تک کہ جب جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کل بھوشن کے حوالے سے پریس کانفرنس کی تو پرویز رشید ساتھ ایسے لب سیے بیٹھے رہے جیسے قومی سلامتی کے معاملات سے انکا کوئی تعلق نہیں اور انکو زبردستی پریس کانفرنس میں آنا پڑا ہو ۔یہ سب صورتحال دیکھ کر پاکستانی افسوس کرتے تھے کہ پاور سرکلز میں کوئی اتفاق نہیں ۔آپس کی رنجش اور طاقت کی کشمکش شاید کچھ لوگوں کے لئے حکومت میں ملکی سلامتی سے بڑھ کر تھی ۔

لیکن عمران خان اداروں کا مکمل احترام کرتے ہیں اور انکو کو بھی بلاشبہ آرمی اور آئی ایس آئی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور وہ توازن سے معاملات چلا رہے ہیں اداروں کے درمیان چپقلش کے قائل نہیں ۔مخلتف تقریبات، غیر ملکی مہمانوں کی آمد پر ملٹری اور سول قیادت ایک ساتھ ہوتی ہے اور خوشگوار ماحول میں بات چیت ہورہی ہوتی ہے۔مسلم لیگ کے دور میں آپس کی خفگی، سرد مہری اور سپاٹ چہرے اب نہیں نظر آتے ۔

باجوہ ڈاکٹرین کے تحت جنرل باجوہ نے جو غیر ملکی دورے کئے اس نے پاکستان کے سفارتی تعلقات میں نئ جان ڈال دی ۔حال ہی میں پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر نے پیرس میں عالمی میلے میں سب کا دھیان اپنی طرف مبذول کرالیا۔فوج کی حکمت عملی اور 27 فروری کی جیت پاکستان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس ہی لئے امریکہ کو پاکستان کی یاد پھر ستا رہی ہے کیونکہ امریکہ یہ بات جانتا ہے پاکستان کی طاقت ور فوج ، ماہر انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی اور ایم آئی اور پاکستانی حکومت انہیں افغانستان میں 18 سال کے بنے دلدل سے نکال سکتے ہیں ۔عمران خان کا دورہ امریکہ اس لئے بھی کامیاب رہا کیونکہ یہ دورہ سول اور ملٹری قیادت کا مشترکہ دورہ تھا اور مفاد صرف پاکستان تھا۔ورنہ اس سے پہلے خاندان کے خاندان امریکا برطانیہ اور بھارت لے کر جائے جاتے تھے کہ بچوں کے کاروباری معاہدے ہوجائیں باقی ملک کا اللہ حافظ ۔

تاہم اب جب ملک کی عسکری اور سول قیادت ایک صفحے پر ہے اور کوئی ذاتی کاروباری مفاد بھی نہیں تو دورہ امریکہ کے دور رس نتایج حاصل ہوگے جس سے عوام خوشحال ہوگے اور افغانستان میں بھی امن قائم ہوگا۔کہتےہیں صرف اس گھر میں برکت ہوتی ہے جہاں اتفاق ہو اس ہی طرح وہ ہی ملک ترقی کرتا یہاں اتفاق ہو اپنا ذاتی مفاد نہیں سب سے پہلے پاکستان کا مفاد آتا ہو۔

حالیہ دورہ امریکا میں صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔یہ بہت بڑی پیش رفت ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر نے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔اگر کشمیر کو آزادی مل جائے تو یہ خطے پر مثبت چھوڑے گا اور کشمیری بھارت کے ظلم و ستم سے نجات پا جائیں گے۔صدر ٹرمپ نے افغان امن میں پاکستان کی کردار کی تعریف کی ۔

پاکستان مسلسل سازشوں کی زد میں تھا۔انڈیا کی طرف سے سازشیں، افغانستان کی طرف سے دہشگردی لیکن 27 فروری کی جیت کے بعد حالات کافی حد تک بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔مغربی میڈیا اور بھارتی میڈیا میں  پاکستان کے خلاف مسلسل آرٹیکل لکھوائے جارہے تھے امریکہ یورپ میں سیاسی پناہ لئے بیٹھے کچھ دیسی لبرلز بھی دن رات سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے یہ کامیاب دورہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ان کی تمام سازشیں ناکام ہوگی ہیں ۔پاکستان سفارتی تعلقات کی نئی شاہراہ پر رواں دواں ہے جہاں سے معاشی خوشحالی کے راستے کھل جائیں گے۔



متعللقہ خبریں