ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 36

ترکی اور آذربائیجان کے باہمی تعلقات اور اس کے خطے پر اثرات

1045783
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 36

14 جنوری سن 1992 کو ترکی اور آذربائیجان کے درمیان طے پانےو الے سفارتی تعلقات  معاہدے کے بعد اب 26 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔  ترکی۔ آذربائیجان تعلقات اور ان کے خطے پر اثرات کا جائزہ

قارا تیکن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کے قلم سے۔۔۔ 

جمہوریہ ترکی  30 اگست سن 1991 کو اعلانِ آزادی کرنے والے جمہوریہ آذربائیجان کو 9 نومبر سن 1991 میں  تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ ترکی اور آذربائیجان  کے مابین سفارتی تعلقات کا قیام 14 جنوری سن 1992 میں عمل میں آیا۔ دو طرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے زیر مقصد 2010 میں صدارتی سطح پر اعلی سطحی حکمت ِ عملی تعاون کونسل  میکانزم قائم کیا گیا۔ آذربائیجان  کے ساتھ قائم کردہ ترکی۔ آذربائیجان۔جارجیا، ترکی۔ آذربائیجان۔ایران اور ترکی۔ آذربائیجان۔ ترکمانستان سہہ رکنی اجلاس علاقائی اجلاس کا اہتمام علاقائی استحکام، امن و خوشحالی  کے قیام میں خدمات فراہم کرنے والے اہم میکانزم  ہیں۔

بحیرہ کیسپین کے توانائی کے وسائل  کو عالمی منڈی تک پہنچانے پر مبنی 'باکو۔تبلیسی۔ جیہان خام تیل پائپ لائن' اور باکو۔تبلیسی۔ ارض روم' قدرتی گیس پائپ لائن ' منصوبوں   کو عملی جامہ پہنانا آذربائیجان اور ترکی کے مابین بھائی  چارگی سے شراکت داری کی جانب  بڑھنے والی راہ  میں  اہم اقدامات کو تشکیل دیتے ہیں۔دونوں مملکتوں کا باہمی تجارتی حجم 5 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دونوں ملکوں کا ہدف سن 2023 میں اس حجم کو 15 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔

دو طرفہ اعتماد و تعاون کی بنیاد پر شکل پانے والے آذربائیجان ۔ ترکی تعلقات  بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھی جاری ہیں۔ دونوں  ممالک اقوام متحدہ، یورپی سلامتی و تعاون تنظیم ، یورپی کونسل، بحیرہ اسود اقتصادی  تعاون تنظیم، ترک کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم    کے رکن کے طور پر اہم سطح کی خدمات ادا کررہے ہیں۔

آذربائیجان اور ترکی کے مابین فوجی تعاون کے دائرہ کار میں دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان رابطے  کے فروغ کے زیر مقصد مختلف ادوار میں  جنگی مشقیں سر انجام دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں مئی 2017 میں باکو کے جوار میں فوجی تربیتی  شعبے میں سر انجام دی جانےو الی  جنگی مشقوں میں ایک ہزار فوجی جوانوں، 80 ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں، 60 توپ گنوں ، 12 ایم آئی ۔35 اور ایم آئی۔17 حملہ آور و سامان بردار ہیلی کاپٹروں  سمیت فضائی دفاعی نظام   کو بروئے کار لایا گیا تھا۔ یہ مشقیں 5 مئی تک جاری رہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔

آذربائیجان کا ترکی کی طرح اعوز ترکوں سے تعلق  ہونا، تاریخی سلسلے کے اندر ایک ہی سر زمین پر مشترکہ ماضی اور جغرافیائی قربت   ترکی  کو اس ملک کے ساتھ کہیں زیادہ قریبی  ڈائیلاگ کرنے  میں آسانیاں لاتا ہے۔ ترکی کے اس ملک کے ساتھ تعلقات کثیر الجہت اور سٹریٹیجک نوعیت کے ہیں۔ دونوں ملکوں کے صدور اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اولین طور پر ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرتے ہیں  یہ  عمل اب ایک  ریت بن چکا ہے۔ ترک۔ آذربائیجانی دو طرفہ تعلقات  سے خطے میں امن و استحکام کے قیام کا مقصد بنایا گیا ہے، ان کے باہمی تعلقات کسی تیسرے ملک کے لیے  خطرہ تشکیل نہیں دیتے۔ یہ  باہمی روابط "سٹریٹیجک شراکت داری" نظریے  پر ٹھیک  بیٹھتے ہیں۔  دونوں ریاستوں کے   مابین 26 برس  جیسی قلیل مدت میں  حاصل کردہ  کامیابیاں اور گٹھ جوڑ ناقابل ِ متاثرہ بھائی چارے  روابط کا مظہر ہیں۔

ترکی، بالائی قارا باغ کے مسئلے کو آذربائیجان کی زمینی سالمیت اور حاکمیت کے ماحول میں پر امن طریقوں سے کسی حل سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں ہے۔ یہ  اس دائرہ کار میں  یورپی سلامتی و تعاون تنظیم  کے منسک گروپ کے ایک رکن کے طور پر  اپنی جدوجہد میں مصروف ہے اور آذربائیجان۔آرمینیا سرحدوں  کے ایک علاقے میں رونما ہونے والے پر تشدد واقعات اور کسی جانی نقصان کی صورت میں اپنے خدشات  اور مذاکراتی عمل کو سرعت دینے  کی اپیلوں کو ہر موقع پر زیر لب لاتا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ منسک کے ارکان اس معاملے میں ابھی تک کسی مستحکم قدم کو نہ اٹھاتے ہوئے اس معاملے کو طول دے رہے ہیں۔ اس نکتے پر بین الاقوامی قرار دادیں موجود ہونے کے باوجود بالائی قارا باغ کا مسئلے کو آذربائیجان کی ملکی سالمیت کے دائرے میں پر امن طریقے  سے حل کیے جانے کے حوالے سے ترکی آئندہ بھی اپنا تعاون فراہم کرتا رہے گا۔

دونوں ملکوں کے سٹریٹیجک تعاون میں دفاعی معاملات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کا معاملہ  بھی دونوں ملکوں کے لیے  خاصا اہم ہے۔ اب کسی عالمی  منصوبے کی ماہیت اختیار کرنے والے ٹرانس اناطولیہ قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے(   تاناپ  ) پر سرعت سے اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنائے جانے کے ساتھ  ترکی اور آذربائیجان کی حیثیت اور خطے میں سٹریٹیجک اہمیت  میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔

14 اکتوبر سن 1921 میں آذربائیجان  کے انقرہ میں نمائندے ابراہیم ابیلووف   کی جانب  سے   سفارتی اسناد  پیش  کردہ اجلاس میں مصطفیٰ کمال  اتاترک نے  کہا تھا کہ:"آذربائیجان کی خوشی ہماری خوشی اور اس کی تقدیر  ہماری تقدیر ہے۔"  جس کے بیسیوں  برس بعد آذربائیجانی لیڈر حیدر علی یف نے  ان بامعنی الفاظ کا جواب  اس قول سے دیا تھا ۔"ہم ایک قوم دو ریاستیں ہیں" عصر حاضر میں ترکی اور آذربائیجان کے باہمی  روابط کی سٹریٹیجک اہمیت تاناپ، باکو۔تبلیسی۔ قارس ریلوے لائن  اور دیگر منصوبوں  کی بدولت مزید پروان چڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے عزم اور سیاسی ارادہ دونوں ملکوں میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے رجب طیب ایردوان اور الہام علی یف جیسے طاقتور سربراہان  دونوں مملکتوں کے لیے   ایک بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔اگر ان  دونوں برادر مملکتوں کے تعلقات  اسی ڈگر پر چلتے رہے تو تعین کردہ اہداف کا عنقریب حصول ممکن بن جائیگا۔



متعللقہ خبریں