​​​​​​​حالات کے آئینے میں ۔ 34

​​​​​​​حالات کے آئینے میں ۔ 34

1038123
​​​​​​​حالات کے آئینے میں ۔ 34

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان درپیش کشیدگی کے اسباب اسٹرکچرل بھی ہیں اور دائروی بھی۔ ساخت  کے اعتبار سے یا اسٹرکچرل معنوں میں دیکھا جائے تو 1952 میں نیٹو  کی رکنیت سے ہی امریکہ، ترکی کے ساتھ منفی اور بے ڈول تعلقات قائم کرنے کی کوشش  میں دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم ترکی کا خاص طور پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی  کے دورِ اقتدار کے ساتھ ہی ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا اور ملکی مفادات  کو مرکزی اہمیت دینے کی حالت میں ہونا امریکہ سے ابھی تک ہضم نہیں ہو پا رہا۔

دائروی حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ کا دہشت گرد تنظیم فیتو کے سرغنہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا، اس کے لئے عدالتی عمل شروع نہ کروانا اور اسے ریاست پینسلوانیا میں آزادانہ زندگی گزارنے کے امکانات فراہم کرنا دو طرفہ تعلقات کو کشیدہ بنانے والے اہم موضوعات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا شام میں دہشت گرد تنظیم PKK کی شامی شاخ YPG کے ساتھ مل کر کاروائیاں کرنا ، انہیں مقامی اتحادی کے طور پر تسلیم کرنا، انہیں تربیت دینا اور مسلح کرنا ترکی کے لئے  قابل قبول صورتحال نہیں ہے۔ نتیجتاً دہشتگردتنظیم پی کے کے کا ترکی کی جنوبی سرحد پر اس قدر  پھیلنا اور وسیع علاقے کو عمل دخل میں لینا ترکی کے حوالے سے ایک قومی خطرہ ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اس تناو میں اضافی طور پر عیسائی راہب برنسن اور ایف۔35 بحران بھی شامل ہو گیا ہے۔

امریکہ کے سینٹ اراکین حالیہ دنوں میں ترکی کے خلاف برنسن کی حراست  اور ترکی کے روس سے ایس۔400 دفاعی سسٹم خریدنے کے موضوعات پر بات کر رہے تھے۔ سینٹ اراکین کی طرح  برنسن کی رہائی کے معاملے میں وائٹ ہاوس کی طرف سے بھی اصرار کیا جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ملاقاتوں میں برنسن کی رہائی کا مطالبہ کیا۔    علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے برنسن کی رہائی سے متعلق  ٹویٹ بھی  کئے۔ ترکی میں مقیم راہب برنسن 15 جولائی  میں فیتو  کے حملے کے اقدام کے بعد فیتو اور PKK کے ساتھ رابطے کی وجہ سے عدالتی کاروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ امریکی انجیل کے مبلغ حلقے کی حمایت سے محروم نہ ہونے  اور اس حلقے کے ووٹروں  کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے امریکہ کے نائب صدر مائیک پومپیو نے جاری کردہ بیان میں ترکی سے برنسن کی رہائی کا مطالبہ کیا اور ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دی۔ اس کے فوراً بعد ٹرمپ کے نائب پینس نے اس بیان کی حمایت کی اور ترکی کے خلاف دھمکیوں کو دوہرایا۔  تاہم ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے کہا کہ ہم امریکہ کی ترکی پر دھونس کو قبول نہیں کرتے ، راہب  پر عدالتی کاروائی آزادانہ شکل میں جاری ہے اور یہ کہ امریکہ کے مطالبات عدالتی  آزادی کے خلاف ہیں۔

امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے فیصلے کے ساتھ ترکی کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ  کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا اور ترکی پر جزوی کریڈٹ پابندی لگائی گئی ۔ اس فیصلے سے  امریکہ نے ترکی کے خلاف اقتصادی جنگ کا آغاز کر دیا۔ ترکی کی منڈیوں اور ایکسچینج ریٹ کو افواہوں سے متاثر کیا جانے لگا۔ ترکی کے خلاف اقتصادی حملوں کے جواب میں ترکی کے مرکزی بینک  نے اہم فیصلے کئے اور ترک لیرے  کی قدر میں کمی کو روک کر ڈالر کے مقابل میں لیرے کی قدر میں اضافے کو یقینی بنایا۔ نتیجتاً 7 سے اوپر چڑھنے والی ڈالر کی قیمت دو دن میں 6 سے نیچے گر گئی۔

ترکی کے خلاف اقتصادی حملوں کی شدت کے دنوں میں ترکی کے وزیر خزانہ بیرات آلبائراک نے ترکی کے نئے اقتصادی ماڈل اور قوائد کا اعلان کیا۔ اس دوران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے خلاف ایلومینیم اور فولاد کی درآمد پر اضافی کسٹم ڈیوٹی  کا اعلان کر دیا ۔ اگرچہ ٹرمپ کے اعلان نے ایکسچینج ریٹ کو اہم سطح پر متاثر کیا لیکن ترک لیرے نے دوبارہ خود کو سنبھال لیا۔ ٹرمپ ترکی پر اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف بھی اقتصادی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ ایک اہم پہلو ہے۔ نتیجتاً ٹرمپ کے ترکی پر اضافی کسٹم ڈیوٹی لگانے  سے کچھ دن بعد چین، ترکی اور روس نے مقامی کرنسی میں ایلومینیم اور فولادی کی درآمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ ترکی پر امریکی اقتصادی حملے کے بعد روس اور ایران نے ترکی کے ساتھ تعاون کے حامل بیانات جاری کئے۔

تاہم ترکی کے حوالے سے اہم ترین منڈی یعنی یورپی یونین  کا امریکی پابندیوں کے خلاف رویہ کافی حد تک اہمیت کا حامل تھا۔ یورپی یونین اور خاص طور پر جرمنی نے کہا کہ وہ ترکی کے اقتصادی معنوں میں کمزور ہونے  اور بحرانوں کا شکار ہونے  کا خواہش مند نہیں ہے اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھنا چاہتا ہے کیونکہ ترکی کے بحران کا شکار ہونے کی صورت میں یورپی یونین کے ممالک بھی اس سے اہم سطح پر متاثر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک لیرے کی قدر میں گراوٹ نے یورپی اسٹاک مارکیٹوں  میں یورو۔ڈالر کرنسی کے انڈیکس کو منفی کر دیا۔ خاص طور پر اٹلی اور اسپین کے بینکوں کا ترکی کے لئے بڑے پیمانے کا قرضہ یورپی یونین کو ترکی میں کسی بھی بحران  کے امکان  کے مقابل اندیشوں میں مبتلا کر رہا ہے۔



متعللقہ خبریں