عالمی نقطہ نظر 22

"لبرل اسلام" کا مفہوم کیوں اور کس لیے

981377
عالمی نقطہ نظر 22

Küresel Perspektif   22/18

Kime ya da Neye “Ilımlı İslam”

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

 

 بسا اوقات  بعض ممالک کی خفیہ ایجنسیاں  حقائق   کاچہرہ مسخ کرنےکےلیے  فرض مباحثوں کا سہارا لیتی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ  دیر یا بدیر حقائق     کا چہرہ  اپنی پوری آب و تاب سے دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔

 اس سلسلے میں ایک  ٹھوس دلیل روشن خیال یا لبرل اسلام  کی ہے   جسے  مغربی دنیا  آج کے دور میں  ذریعہ بحث بنائے ہوئے ہے۔  جنگ عظیم دوئم  سے قبل    مغربی دنیا   بالخصوص یورپ میں  یہودی مخالف نظریات کو ابھارا  اور اب  یہ عالم ہے کہ  یہی دنیا   نیو نازی ازم  اور نیو فاشزم  پر چپ سادھے  لبرل اسلام  پر بحث کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں  فرانس میں  بعض  تنظیموں نے  یہودی مخالف  نظریات کا بہانہ بناتے ہوئے  قرآن کریم کی بعض آیات حذف کرنے کا  مطالبہ کر دیا  مگر یہی روشن خیال یورپی شخصیات امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی    کے خلاف  اسرائیلی فوج   کی  فلسطینیوں پر چڑھائی  اور قتل عام  پرخاموشی کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ در حقیقت لبرل اسلام  کا مفہوم اگر  ان افراد کی نظر میں    دین کی آڑ میں دہشتگردی کا ہاتھ  تھامنے  اور خطے میں   موجودانسانی معاشرے  کے اخلاقی ضمیرکو جھنجھوڑنے  اور  دہشتگرد تنظیموں کے  خلاف جدو جہد کرنے    کا ہوتا تو ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص اس کے خلاف نہیں ہوتا ۔ لہذا  اس  جدو جہد کو لبرل اسلام کا نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کا نام دیا جانا زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ دہشت گردی   کا مذہب نہیں وہ صرف دہشت گردی ہے ۔ احوال یہ ہے کہ  مسیحی  ذرائع   سے وابستہ  دہشت گرد تنظیموں کی  حرکات کو روکنے کےلیے   کسی لبرل عیساءیت  کا رونا  نہیں رویا جاتاحتی فلسطین پر قابض  اسرائیل  کے وحشیانہ مظالم  کے خلاف بھی آواز بلند کرنے کےلیے  لبرل یہودیت  کا نام ہم نے تو آج تک نہ سنا ۔

 در اصل  لبرل اسلام    سے مراد  دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں   ہے  اگر ایسا ہوتا تو   یہ مشکل نہیں ہوتا کہ دنیا  کے تمام مذاہب،نظریات  یا سامراجی طاقتیں آپس میں سر جوڑ کر  اس کے خلاف مشترکہ موقف اپناتے ۔

 یاد رہے کہ  کہ  دنیا کی بیشتر خفیہ ایجنسیاں  اس لبرل اسلام کے مفروضے کے بہانے  اپنے  مفادات اور  معصوم ممالک کے  زیر زمین چھپے قیمتی وسائل پر قبضۃ جمانے کےلیے   ہر طرح کے گھناونے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ سامراجی طاقتیں  اپنے ان منصوبوں کی تکمیل کی خاطر  مشرق وسطی    کی مسلم آبادی کو  انسانیت اور  نظریات کا  قاتل قرار دینے   کا  نام نہاد نقارہ بجا رہی ہے ۔

 

مشرقی وسطی کی اقوام سے پوچھا جائے کہ  کیوں کر  ان مغربی طاقتوں کو خود پر مسلط کرنے کی اجازت دی  مگر یہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔

 فیتو،داعش،پی کےکے  اور پی وائی ڈی  جیسی  دہشت گرد تنظیموں  سے    وابستہ عناصر اور اُن کو فراہم کردہ اسلحے پر قبضے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ کس طرح بعض مغربی خفیہ ایجنسیاں  ان کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔

 

بعض  مغربی ممالک   کا اپنی عوام پر تو بس نہیں چلتا مگر وہ  مسلم ممالک  پر اپنی جابرانہ پالیسیاں صادر  کرنے میں کسی تردد سے کام نہیں لیتے۔مغربی دنیا  کی اکثریت  ماسوائے اسرائیل  کے  مشرق وسطی   میں کسی بھی جمہوری نظام     کوپھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتی۔مصر کی بات ہی لیجیئے جہاں ہزاروں افراد کی قاتل حکومت  پر اس کی زبان پر تالے پڑے ہیں۔  یہ وہ طاقتیں ہیں  جو کہ  اپنی عوام پر دباو ڈالنے والے شاہی خاندانوں سے بھی    مطلب پرستانہ روابط رکھے ہوئے ہیں  ۔

 یہ وہی ممالک ہیں جو کہ   ترکی  کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا رہے ہیں جہاں پہلے انتخابات کا انعقاد  کئی مغربی ممالک کے بر خلاف سن 1876 میں  ہوا تھا اور جہاں خواتین  کے انتخاب  کی اجازت سن 1934 میں  ملی تھی ۔

مشرقی وسطی میں بعض ممالک انتشار پیدا کرتےہوئے  مذہبی  نفرت  اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں حتی     ترک صدر رجب طیب ایرودان  اورخطے  کے  دیگر   عوام دوست اور  جمہوریت پسند  قائدین   کی شخصیات مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 واضح رہے کہ لبرل اسلام کا نعرہ لگانے  والے عناصر   کی جی حضوری کرنے والوں کو لبرل اور ان کی  پالیسیوں کی مخالفت  کرنے والوں کو آمر قرار دیا  جاتا ہے۔

  بعض عالمی طاقتوں کا منصوبہ ہے کہ وہ  مشرق وسطی میں ایسے صاحبان اقتدار اور دہشتگرد  تنظیموں   کو دیکھنا چاہتے ہیں  جو کہ ان کے ہاتھوں میں  کٹھ   پتلیاں  بنے رہیں   تاکہ ان کا کام چلتا  رہے ۔

 یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید   یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم  کے پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 

 



متعللقہ خبریں