حالات کے آئینے میں 38

میانمار میں جاری انسانی المیہ اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے ممکنہ اسباب کا جائزہ

809836
حالات کے آئینے میں 38

کئی  مہینوں سے اقلیت کو  ایک خود مختار  مملکت کے  شہری  ہونے کے باوجود   قتل ِ عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے مکانات ،  دیہاتوں اور قصبوں کو جلا کر خاکستر کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف مکانات اور  دیہات بلکہ  اس کے ساتھ ساتھ انسانوں، بچوں،  بوڑھوں   اور خواتین کی   تفریق کیے بغیر انہیں   زندہ جلایا جا رہا ہے۔    بعض اوقات انہیں  چھریاں مارتے  ہوئے یا پھر گولیوں سے چھلنی  کرتے ہوئے موت کے منہ میں  دھکیلا جا رہا ہے۔  بچے ، بزرگ  سمندر کی  تیز  لہروں  میں اپنے آپ کو پھینکتے ہوئے  موت کو  گلے لگا رہے ہیں۔ ان وحشیانہ اور غیر انسانی   افعا ل کے پیچھے  ایک حکومت اور ملکی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہونے والے بدھ مت  راہب ، فوج اور شہری کار   فرما ہیں۔

قتل  ہونے والے روہنگیا والے نہیں  بلکہ انسانیت   ہے۔ اقوام متحدہ سمیت  تمام تر بین الاقوامی تنظیمیں  اس  قتل عام  پر  خاموشی   سادھے بیٹھی ہیں۔ روہنگیا والوں کے  مسلمان ہونے کے باوجود  بیسیوں اسلامی ملکوں سے کوئی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی۔ صرف اور صرف صدر رجب طیب ایردوان نے  اس قتل عام  کے خلاف صدا بند کرتے   ہوئے اس معاملے کو عالمی ایجنڈے میں  داخل کیا۔

نہ صرف حقوق انسانی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق  کے معاملات میں قدرے حساسیت کا مظاہرہ  کرنے والی یورپی یونین اور تمام تر  مغربی ممالک  ان مظالم کے سامنے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

 یورپ اور مغربی ممالک کی انسانی اقدار کا  تقریباً 35 برسوں سے  یہ بذات خود استحصال کر رہے ہیں اور اب مغرب کے  پاس  اس حوالے سے بحث کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اب  ہر کسی کے علم  میں ہے کہ مغربی اور خاصکر  یورپی یونین جب  بھی "حقوق ِانسانی اور  ڈیموکریسی " کا  واہ ویلا مچاتے ہیں  تو  اس کے پیچھے اقتصادی مفادات  کار فرما ہوتے ہیں۔ ابھی بھی   ضمیر زندہ ہونے والے   اس   تلخ حقیقت  سے بخوبی آگاہ ہیں۔

مغرب  اپنی اقدار کو پاؤں تلے  روندھتے ہوئے  خود بخود اپنے  وجود کا خاتمہ کرنے والی  ایک تہذیب  کے طور  پر  تاریخ میں قلم بند ہوگا اور مجھے  خدشہ ہے کہ ہم اس المیہ کا مشاہدہ کریں گے۔

مغرب نے  ایک چوتھائی صدی قبل  یورپ کے وسط میں بوسنیا  میں سربوں کی جانب  سے  نسل کشی اور قتل عام پر  اپنی آنکھیں بند رکھتے ہوئے    اپنی موت  کا فرمان جاری   کر دیا تھا۔  بعد میں  لائبیریا میں خانہ جنگی  کے خلاف  اس کے مؤقف   سے ہر  کس آگاہ ہے۔   عراق  اور افغانستان پر   جھوٹ موٹ کے دعووں کے ساتھ  قبضے نے   دنیا میں  مغرب پر اعتماد  کو  توڑ پھوڑ  کر رکھ دیا۔  بہارِ عرب  کے دوران اس کی پالیسیوں  نے  رہی سہی  امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ جمہوری طریقے سے مصری عوام کی ایک بڑی اکثریت کی جانب سے صدر  منتخب کردہ محمد مرسی کی حکومت کے  خلاف  سرکشی میں باغیوں کی صف میں  شامل   ہونا، مغربی اقدار کی آخری   سانس تھی۔  ترکی میں جمہوری   طریقوں سے  منتخب  ہونے والے صدر کا تختہ اُلٹانے  کی   کوشش کرنے والے باغیوں  سے بغلگیر ہونے  کی حرکت   مغربی   دوہرے  چہرے کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس ناکام بغاوتی اقدام کے دوران سینکڑوں افراد  ہلاک  جبکہ  ہزاروں  کی تعداد میں زخمی ہو گئے تھے۔ مغرب اور    یورپی یونین نے   ان  دہشت گردوں    کو  اپنی آغوش میں لیتے ہوئے انہیں مہاجر  کی حیثیت دے دی۔

آج اسی مغرب کا روہنگیا مسلمانوں  کے خلاف وحشیانہ  کاروائیوں کے سامنے  چپ    رہنا  اب کسی کو غصہ   نہیں دلاتا، کیونکہ   اب  انسانوں کو یہ علم  ہے کہ  جمہوریت،  مساوات، انسانی حقوق  کی طرح کے نظریات  اب مغرب کے  لیے صرف اور صرف   مفادات کی خاطر  استعمال کردہ   آلہ کار ہیں۔

روہنگیا میں     پیش آنے والے  واقعات در اصل  شام، عراق اور  لیبیا کی  بیرونی طاقتوں  کی جانب سے چھیڑی گئی   جنگوں   سے  مشابہت  رکھتے ہیں۔  مغربی  ممالک     کی    سب سے بڑی اقتصادی و فوجی طاقتیں  یہ نہیں  چاہتیں  کہ عوامی جمہوریہ چین  اقتصادی طور پر ترقی کرے  اور  شاہراہ ریشم   منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔

عالمی تجارت کا نصف سے زائد  آبنائے ملاکا  کے  راستے سر انجام پاتا ہےاور  اس کے   جوار   میں  چین کو جانے والی   تیل اور قدرتی گیس کی   پائپ لائنیں موجود ہیں۔  چین کے  لیے قدرے  اہم ہونے والی ان دو   راہداریوں    کاخطرے   سے دوچار ہونا   چینی معیشت کو  نازک  بنا  دے گا۔

یہ پائپ لائنیں  روہنگیا سے  گزرتی  ہیں اور میانمار  حکومت  حصولِ آزادی کے بعد سے  ابتک    روہنگیا مسلمانوں پر ہر  طرح کا دباؤ اور تشدد  کر رہی ہے۔ تا ہم سن 2010 سے ابتک یہ دباؤ نسل کشی اور قتل عام   کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  تشدد  ، تشدد کو ہی جنم دیتا ہے  اور  اچانک  فاقہ کشی کے  شکار  روہنگیا میں  میں   جدید اور مہنگے  ترین اسلحہ سے لیس  ایک دہشت گرد تنظیم   نے اپنا چہرہ نمودار کیا۔  جس نے    روہنگیا  والوں کے حقوق   کے لیے  جنگ   کرنے کا دعوی کیا تھا،  لیکن اس کی ہر کاروائی  روہنگیا مسلمانوں کے لیے موت کا فرشتہ   ثابت ہوئی۔

چین کی اہم  پائپ لائنیں اور بحری تجارت کے  80 فیصد کے حصے کا آبنائے ملاکا کے ذریعے   سر انجام پانے نے اس ملک   کو خطرے  کی نظر سے دیکھنے والوں کو  اقتصادی مفادات کے لیے  نئے حل چارے  تلاش کرنے کی  جانب  راغب کیا۔ نام  نہاد  مہلک  ہتھیاروں  کو ناکارہ بنانے  کے لیے  افغانستان  اور  عراق میں  داخل ہونے والے مغرب قوتوں کے اصل مقصد کے اس چیز سے  بالکل   ہٹ کر ہونے  کی حقیقت  سب پر عیاں ہے۔  جوہری اور  مہلک ہتھیار موجود نہ ہونے کا  علم ہونے کے  بھی    مغربی ملکوں کی ان ممالک میں موجودگی آپ کے خیال میں ایک    عجیب و غریب بات نہیں ہے؟

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سن 1991 سے   مغرب کی  مشرق وسطی میں چھیڑی گئی   جنگ  ایشیا میں بھی جا پہنچی ہے۔  میں امید کرتا  ہوں کہ میانما ر حکومت  عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے       اس گرداب سے  انسانوں کو نکال لے گی۔  روہنگیا مسلمانوں کو علاقے سے نکال باہر کرتے ہوئے   سیاسی  نقشے میں تبدیلی  لایا جانا مقصود ہے۔  یہ بات قطعی ہے کہ یہ واقعات  روہنگیا تک محدود نہیں رہیں گے ۔ میری تمنا اور خواہش ہے کہ یہ دنیا   گندے عزائم کی حامل جنگوں سے نجات  حاصل  کر لے گی۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں