ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 23

ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 23

789014
ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 23

پروگرام " ترکی یوریشیاء ایجنڈہ" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ چین ایک طویل عرصے سے جدید شاہرائے ریشم منصوبے کا تعارف کروا رہا تھا اور اب ماہِ مئی میں اس منصوبے کے لئے بیجنگ میں 29 ممالک کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا۔ ہم بھی اپنے آج کے پروگرام میں "ون بیلٹ ون روڈ : جدید شاہرائے ریشم" منصوبے کا جائزہ لیں گے۔ اتا ترک   یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جمیل دوعاچ اپیک  کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

سال 2013 میں "ون بیلٹ ون روڈ : جدید شاہرائے ریشم" کے نام سے چین کے صدر شی جی پنگ کی طرف سے پیش کردہ منصوبے کے لئے 29 ممالک کے سربراہان ماہِ مئی میں بیجنگ میں جمع ہوئے۔ چین نے منصوبے کے لئے سال 2014 میں شاہرائے ریشم اکانومی بیلٹ  فنڈ قائم کیا اور  اس فنڈ کے لئے 40 بلین ڈالر کے مالی وسائل مختص کئے ۔  منصوبے کے ساتھ تعاون کے لئے 2014 میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایشیاء انفراسٹرکچر بینک قائم کیا۔ ترکی اس بینک میں بانی رکن ہے۔ اندازوں کے مطابق منصوبہ 65 ممالک میں 4.4 بلین افراد اور 20 ٹریلین ڈالر کی مالیت تک پہنچے گا۔

منصوبے کا بنیادی مقصد ایشیاء ۔یورپ لائن پر اہم اقتصادی طاقتوں کے درمیان رسل و رسائل کا انفراسٹرکچر، تجارت  اور سرمایہ کاری کا رابطہ قائم کرنا ہے۔ یہ منصوبہ صرف ایک راستے پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں کثیر الجہتی اور مختلف ترجیحات شامل ہیں۔ منصوبے میں بری اور بحری دو اہم بین الاقوامی تجارتی گزرگاہیں شامل ہیں۔ ان گزرگاہوں میں سے ایک شاہرائے ریشم اکانومی بیلٹ  اور دوسری بحری  سلک رُوٹ ہے۔ ترکی "وسطی  کوریڈور" کی حیثیت سے پہچانے جانے والے چین ۔مرکز اور مغربی ایشیاء کوریڈور پر واقع ہے۔ راستے کی نوعیت کے اعتبار سے  یہ راستہ  بحری راستے کی  طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس دائرہ کار میں جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک  اور بحر اسود کے شمال تک پھیلے ہوئے بحری علاقے میں پلان کی گئی بندرگاہوں اور دیگر ساحلی تعمیرات و تنصیبات کے نیٹ ورک کی بات کی جا رہی ہے۔ جدید شاہرائے ریشم کو چین کا مارشل پلان بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کی زیر قیادت تشکیل دئیے جانے والے اس منصوبے کو اگرچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی مارشل  امدادوں سے  مشابہہ قرار دیا جا رہا ہے  لیکن ماہرین اقتصادیات  کے اندازوں کے مطابق یہ منصوبہ اس کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ بڑا اور وسیع ہے۔

ترکی نے اس وقت خدمات کے لئے کھلے مارمرائے اور یاوز سلطان سلیم پُل کی سرمایہ کاریوں کے ساتھ   چین کے اقدامات کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اس کے علاوہ تیسرے ائیر پورٹ ، باکو۔تبلیس۔کھارس اور ایدرنے۔کھارس ریلوے لائن منصوبوں کے ساتھ اس تعاون کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترکی نے ان ٹھوس اقدامات کے ساتھ سب سے پہلے منصوبے کے برّی حصے میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کوریڈور کے خدمات کا آغاز کرنے پر چین اور ترکی کے درمیان رسل و رسائل کی مدت 30 دن سے کم ہو کر 10 دن رہ جائے گی۔ بیجنگ سے بحری راستے سے 2 ماہ میں وصول کی جانے والی مصنوعات 2 ہفتوں کی قلیل مدت میں  استنبول پہنچ جایا کریں گی۔ بّری راستے میں بھی 3 ہزار کلو میٹر کی کمی آئے گی۔ چین کی عالمی نمبر ون  لاجسٹک  کمپنیوں  میں سے ایک  COSCO نے ترکی کے سب سے زیادہ کنٹینر پروسیسر بندرگاہوں میں سے ایک قُم پورٹ بندرگاہ کو خریدا ہے۔ اس پیش رفت کے ساتھ ترکی منصوبے کے بحری حصے میں بھی شامل ہو گیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اضافی طور پر سیاحت، سائنس ، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں وسیع ثقافتی تعاون  اور طالبعلموں اور ملازمین کے تبادلے میں فروغ کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ صدر ایردوان کے مطابق یہ منصوبہ دنیا میں دہشت گردی کو حقیقی معنوں میں نیست و نابود کر دے گا۔ وہ ترکی کی حیثیت سے منصوبے کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے  تیار ہونے پر بھی  ہر موقع پر زور دے رہے ہیں۔

ایشیاء، افریقہ اور یورپ  میں بڑے پیمانے کی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری  پر مبنی یہ منصوبہ اس سب کے ساتھ ساتھ اعتقادی مراکز، تہذیبوں  اور بین المعاشرتی اقتصادی و ثقافتی  اثر و نفوذ  کی تشکیل کا بھی امکان پیدا کرے گا۔ منصوبہ چین سمیت وسطی ایشیائی ترک جمہوریتوں ، ترکی ،ایران اور روس جیسے اہم ممالک کو احاطے میں لے رہا ہے۔ تاریخ میں شاہرائے ریشم  کی اہم ترین گزرگاہوں میں سے ایک یعنی اناطولیہ  کی میزبانی کرنے والا ملک ترکی،  چین سے شروع ہو کر یورپ کے اندر تک جانے والے اس منصوبے کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یورپ، ایشیاء اور مشرق وسطی  کے جغرافیاوں کے اتصال کے مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی، منصوبے کے بّری اور ریلوے لائن حصوں پر مشتمل شاہرائے ریشم اکانومی بیلٹ لائن  کو یورپ سے منسلک کرنے کا مقام تشکیل دے رہا ہے۔ نتیجتاً اس وقت چین اور ترکی ایک دوسرے کی جو ضرورت محسوس کر رہے ہیں وہ دو طرفہ ہے۔ چین  ، شاہرائے ریشم   منصوبے کے مرکز میں  واقع ملک ترکی کے ساتھ  تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ منصوبے میں بھی تیزی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ترکی مضبوط بندرگاہ انفراسٹرکچر  کے ساتھ بحری راستے سے رسل و رسائل کے لئے ایک اہم ایڈوانٹیج کا مالک ہے۔ تاہم خاص طور پر ریلوے لائن اور لاجسٹک نیٹ ورک  کی مضبوطی کے لئے جاری منصوبوں  کا تیزی سے مکمل ہونا ضروری ہے۔ ترکی اس منصوبے کے ساتھ ساتھ شاہرائے ریشم اکانومی بیلٹ  لائن پر واقع چین ، ایران اور روس جیسے ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ اقتصادی تعلقات  کو بھی مضبوط بنائے گا۔  اور سب سے اہم یہ کہ آزربائیجان ، کرغستان قزاقستان اور ازبکستان جیسی ترک جمہوریتوں کے ساتھ  بھی روابط  کو اعلیٰ سطح پر لا سکے گا۔



متعللقہ خبریں