ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔30

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔30

779508
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔30

 

    دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی شام میں شاخ پی وائے ڈی اور وائے پی جی میں  کافی تعداد میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی موجود ہیں ۔ آج کے   اس پروگرام میں پی وائے ڈی اور وائے پی جی میں   موجود غیر ملکی  دہشت گردوں اور  علاقے پر اثرات  کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

فارن ٹیروسٹ واریر    ایف ٹی ڈبلیو یعنی غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کا نظریہ 2014 میں داعش کے شام میں اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے کیساتھ منظر عام پر آیا ۔  داعش نے دنیا کے کونے کونےمیں موجود ان سے ہمدردی رکھنے والے دہشت گردوں کو علاقے میں آنےکی دعوت۔ 24  ستمبر 2014 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کیطرف سے ایف ٹی ڈبلیو عنوان کیساتھ قرار داد نمبر 2178 کو منظور  کیا گیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل   کی ایف ٹی ڈبلیو  نامی قرار داد کا  سکونت یا  شہریت رکھنے والے ملک   کے بجائے کسی دوسرے ملک میں دہشت گرد کاروائیاں کرنے ، ان کی منصوبہ بندی یا فعال شکل میں حصہ لینے کی غرض سے سیاحت کرنے والوں ،مسلح جھڑپوں   میں شریک ہونے والوں اور دہشت گردی کی تربیت لینے یا دینے والے افراد کی شکل میں تعارف کروایا گیا ہے ۔

شام میں داعش  کے ا ثرو رسوخ میں اضافے  یعنی 2014 کے بعد   متعدد ممالک کے سینکڑوں افراد رضا کار جنگجو  کے طور پر  پی کے کے اور وائے پی جیسی دہشت گرد تنظیموں  کے رکن بن گئے لیکن مغربی ممالک نے اس صورتحال کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ مغربی ممالک صرف انتہا پسندی  کی بنیادوں پر سر گرم عمل دہشت گرد تنظیموں میں شامل غیر ملکیوں میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں ۔ دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی میں شامل ہونے والے یورپی باشندوں کیخلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی ۔ پی کے کے اور پی وائے ڈی نے 2014  میں غیر ملکیوں کو انٹر نیٹ سےداعش کے خلاف جنگ میں شامل ہونے  کی دعوت دینی شروع کر دی تھی۔ برطانیہ، امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا،جرمنی، ڈنمارک، یونان ،فن لینڈ، فرانس  اور چین سے  تقریباً 500  غیر ملکی ان تنظیموں میں شامل ہو گئے ۔  ان میں سے 17 دہشت گرد  علاقے میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران ہلاک ہو گئے ۔

اس وقت پی کے کے کے لیے ایک کردی مملکت کا قیام انٹر نیشنل سوشلزم کے فروغ کے لیے ایک ذریعے کی شکل اختیار کر گیا  ہے ۔ پی کے کے غیر عملی لیکن  خوش کن بیانات کیساتھ ایجنڈے میں  موجود جمہوری خودمختاری جیسے   منصوبوں  سے  مشرق وسطی سے باہر بائیں بازو کی تحریکوں کو الہام دینے کا  تاثر  دیتی ہے ۔  اسوقت پی کے کے کی صفوں میں  مسلح تربیت یافتہ ،تشددکے رجحان رکھنے والے انتہا پسند  نظریات کے مالک  بائیں بازو   کےدہشت گرد موجود ہیں  جو دیر یا بدیر  مغرب کو بھی اپنا نشانہ بنائیں  گے ۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  ہے کہ پی کے کے کے یورپ کے انتہائی بائیں بازو کے گروپوں کیساتھ تاریخی روابط چلے آ رہے ہیں ۔ مغرب سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد جنگجو یورپ کی سلامتی اور عالمی نظام کے لحاظ سے دیگر غیر ملکی جنگجوؤں  سے کم خطرناک نہیں ہو نگے ۔

مغربی ممالک  دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی  کو ایک سیکولر تنظیم  کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اس کی حمایت کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ غلطی پر ہیں کیونکہ پی وائے ڈی کا سیکولرزم کے نظریے کا ماڈرن مغربی سیکولرزم اور ڈیموکریٹک نظریات سے دور کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تنظیم  سوویت پولٹ بیورو اور  چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکولر ازم کے  نظریے کی پیروی کرتی ہے ۔   یہی وجہ ہے کہ پی وائے ڈی کے سیکولر نظریات شام کی نشاط نو کے لیے اقتصادی اور سیاسی لیبرلزم میں  نہیں بدل سکتے ۔ اس وقت پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول نافذ العمل سماجی و سیاسی ڈھانچے اور اقتصادی پیداوار کے ماڈل کا  انحصار  ماؤنواز پیرا میٹر کے دائرہ کار میں  communes   پر ہے ۔ پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول علاقوں میں مغربی نظریات کے مالک علاقوں کے قیام کی توقع رکھنا  خیال خامی ہو گی ۔ان علاقوں میں فری مارکیٹ اکانومی، انفرادیت، اظہار اورآزادانہ سرمایہ کاری  جیسے نظریات    ہر گز موجود نہیں ہونگےکیونکہ پی وائے ڈی   ایک غیر حقیقی خواب دیکھ رہی ہے اور وہ  اپنے آپ کو نیوسٹالنسٹ اور  نیو ماؤنواز   جیسے نظریات کے ساتھ متعارف کروا رہی ہے ۔

مغربی ممالک داعش کو شام ،عراق اور پوری دنیا کے لیے خطرےکی نظر سے دیکھتے ہیں جو کہ درست جائزہ ہے  لیکن وہ داعش کیخلاف جنگ کرنے کے لیے پی کے کے اور پی و ائے ڈی کی صفوں میں شامل ہونے والے غیر ملکیوں کو دہشت گرد جنگجوؤں کی نظر سے نہیں دیکھتی ہے   جو کہ فاش غلطی ہے ۔

 کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ پی کے کے اور پی وائے ڈی کی صفوں میں شامل ہونے والے غیر ملکی دہشت گرد  داعش کیخلاف  جنگ ختم ہونے کے بعد ترکی یا کسی دوسرے ملک کے خلاف کاروائیاں نہیں کریں گے ۔ شام اور عراق  سے داعش کا صفایا کرنے کے بعد یہ دہشت گرد  کیا کریں گے ۔ مارکسسٹ اور لیننسٹ شناخت رکھنے والے یہ جنگجو مغرب یا اپنے ممالک واپس جانے کے بعد اپنے سے متضاد نظریات رکھنے والے گروپوں کیخلاف کاروائیاں کر سکتے ہیں ۔نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو ؤں اور دہشت گرد تحریکوں کے وجود کو شام کے شمالی علاقے میں   تسلیم کرنا اور ان کی کاروائیوں  میں اضافے  کا موقع فراہم کرنا مستقبل میں یورپ  کی سلامتی کے لیے خطرہ  ہو گا ۔ یورپی ممالک کو چاہئیے کہ وہ اس سلسلے میں تدابیر اختیارکریں اور  پی کے کے اور پی وائے ڈی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کو   ترک کر دیں ۔یورپی ممالک کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسوقت دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو کر جنگ کرنے والے  ان کے شہری کل ان کے لیے بھی سر درد بن سکتے ہیں ۔



متعللقہ خبریں