ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔43

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔43

596781
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔43

 

ترکی اور عرق کے درمیان عراق میں ترک فوجیوں کی موجودگی اور موصل فوجی کاروائی  میں حصہ لینے کے موضع پر گزشتہ دنوں  جو بحران پیدا ہوا تھا طرفین کے موقف میں تبدیلی  کیوجہ سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور مصالحت کی زمین ہموار ہونے کا احتمال پیدا ہو گیا ہے ۔  حالیہ صورتحال کیمطابق ترک فوجی موصل کاروائی میں حصہ نہیں لیں گے مگرعراقی انتظامیہ ترکی کی علاقے میں موجودگی کو مسئلہ نہیں بنائے گی۔  دریں اثناء عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے اعلان کیا ہے کہ سنّی عوام کے  رد عمل کا باعث بننے والے حشدی شابی ملیشیا بھی موصل میں داخل نہیں

 ہو نگے لیکن ترک فوجیوں کیطرف سے تربیت یافتہ موصل کے عوام پر مشتمل حشدی وطنی ملیشا  موصل کی فوجی کاروائی میں شامل ہو نگے۔

دوسری طرف ترکی اور عراق کے وفود نے دو طرفہ دوروں کا آغاز کر دیا ہے ۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ترک جنگی طیاروں  کےموصل کاروائی میں  حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ترکی کو پیرس میں ہونے والے موصل اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔ ترکی نے موصل کاروائی میں حصہ لینے کےمعاملے میں جو اصرار کیا ہے بعض حلقوں نے جان بوجھ کر اس کا غلط انداز میں  جائزہ لیا ہے ۔ حالانکہ   ترکی سلطنت عثمانیہ کے وارث کے طور پر علاقے میں حاکمیت قائم کرنے کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے ۔

 عراق اور شام میں پیش آنے والے واقعات اور خانہ جنگی کیوجہ سے ترکی  سلامتی  کو لاحق خطرات اور انسانیت  کی پامالی  کا خاموش تماشا نہیں دیکھ  سکتا تھا ۔ شام اور عراق  کیساتھ ترکی کی طویل سرحدیں پائی جاتی ہیں  جس کی وجہ سے ترکی ان ممالک کے مستقبل  کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے  ۔اس مجبوری کے تحت ترکی موصل کاروائی میں حصہ لینے  پر اصرار کرتا چلا آیا ہے ۔

اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ موصل ترکی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔ ایک ایسے وقت جب مشرق وسطی کو نئے سرئے سے شکل دی جا رہی ہے ترکی موصل کے مستقبل کے معاملے میں حساس ہونے پر مجبور ہے ۔ موصل کاروائی کے بعد اندازے کیمطابق قوت کے فقدان کے معاملے میں   ترکی کو جو تشویش لاحق ہے وہ اس میں حق بجانب ہے ۔  ترکی کے لیے یہ بات اہم  ہے کہ موصل میں انتظامیہ اور سلامتی کی ذمہ دار قوت  کونسی ہو گی ۔ علاوہ ازیں ،  1980 کے بعد ترکی کی سلامتی کے لیے خطرہ تشکیل دینے والی دہشت گرد تنظیم پی کے کے  کی  کاروائیوں کے کی روک تھام  کے لیے   ایک غیر فعال پوزیشن برقرار رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔  قدرتی طور پر ترکی کے لیے باعث تشویش معاملہ  یہ ہے کہ پی کے  نے  موصل کے مغربی علاقے سنجار میں ایک فعال فوجی انتظامیہ قائم کر رکھی ہے  ۔ یہ تنظیم سنجار کے مقامی باشندوں کو متحرک کرتے ہوئے عراق اور  شام میں سر گرم عمل دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول علاقے تک اپنی سرگرمیوں کے لیے موزوں علاقہ قائم کرنا چاہتی ہے ۔   اس صورتحال کیوجہ سے ترکی کو عراق میں پیدا ہونے والے قوت کے فقدان  سے پی کے کے اور داعش جیسی دیگر تنظیموں    کیطرف سے  فائدہ   اٹھانے پرتشویش لاحق ہے ۔  اگر چہ سنجار کے مرکز کو داعش سے پاک کروا لیا گیا ہے  لیکن حکومت عراق ابھی تک اس علاقے  پر اپنی حاکمیت قائم نہیں کر سکی ہے ۔ داعش کے قبضے سے واپس لیے جانے والے علاقوں کی صورتحال کو سامنے رکھنے والے ترکی کو خطرہ ہے کہ  موصل کو بھی داعش سے واگزار کروانے کے بعد یہاں پر بھی ویسی ہی صورتحال پیدا نہ ہو جائے ۔ ترکی موصل کے معاشرتی ڈھانچے اور سیاسی توازن کو برقرار رکھوانے کا خواہشمند ہے ۔  نوری المالکی کے دور میں غلط اور دباؤ پر مبنی عمل درآمد  کیوجہ سے سنی باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا  اور  دیگر شہروں کیطرح موصل میں بھی داعش نے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھایا تھا ۔  یہی وجہ ہے کہ ترکی نے موصل میں داخل ہونے والی قوتوں میں حشدی شابی کے ملیشیاوں کو شامل نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ بصورت دیگر موصل میں نسلی اور مذہبی  جھڑپیں شروع ہو جاتیں   اور عراق اور علاقے کے مسائل سنگین شکل اختیار کر لیتے ۔

  موصل کاروائی کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ایران عراق میں اپنے اثرورسوخ کو مسلسل بڑھا تے ہوئے  عراقی پالیسیوں  کو رخ دینےکی کوششوں میں ہے ۔اس صورتحال  کے پیش نظر  ترکی نے علاقائی توازن کو برقرار رکھنے والے قدم اٹھائے ۔ ترکی نے شمالی عراق کی کردی انتظامیہاور سنّی عربوں کیساتھ مشترکہ اندیشوں کیساتھ نئی  مشترکہ  حکمت عملی اپنائی ۔

 سن 2003 میں  امریکی قبضے کے  بعد غلط امریکی پالیسیوں کی وجہ سے سنیّ شعیہ حکومت ا  ب  عراق میں کافی طاقت ور بن گئی ہے ۔  ان حالات میں  موصل کو کس فریق کیطرف سے نجات دلانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ حشدی شابی ملیشیاوں میں  سے انتہا پسندوں نے داعش کے قبضے سے آزاد کروائے جانے والے دیگر علاقوںمیں جو ظالمانہ  کاروائیاں کی ہیں انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ صدر رجب طیب ایردوان نے بھی حق بجانب طور پر اس صورتحال کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ داعش کے قبضے سے واپس لیے جانے والے  علاقوں کو ترک کرنے والے شہریوں  پر حملوں کیوجہ سے حشدی شابی عالمی ایجنڈے میں شامل ہے ۔ انسانی حقوق                 کی نگران کمیٹی نے  نو جون کو جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں  حشدی شابی کو قتل و غارت ،اشکنجوں ،لاپتہ اور ٹکڑے ٹکڑے کی جانے والی لاشوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔کمیٹی نے اس تنظیم کو موصل کاروائی میں کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہ سونپنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ 18 جولائی کو معافی کی عالمی تنظیم نے بھی شعیہ ملیشیاؤں کیطرف سے جنگی جرائم سر زد کرنے سے متعلق 70 صفحات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔

 اس رپورٹ کیمطابق جن  شہروں کو داعش سے واپس لینے کا منصوبہ بنایا گیاتھا  وہاں کے عوام ملیشیاؤں کیساتھ روابط نہ رکھنے  میں حق بجانب ہیں ۔ ان  حالات کو نظر انداز کرنے سے  علاقے میں نسلی بحران کو مزید ہوا دی جائے گی ۔ موصل کاروائی کے دوران داعش کو موصل سے نکالنے کے عمل کو فوجی کاروائی کی نظر سے دیکھنا اور محض اسی پر اکتفا کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ سیاسی میدان میں بھی کامیابی  حاصل کرنا ضروری ہے ۔

 جس طرح فلوجہ شہر کو حکومت عراق  کیطرف سے واگزار کروانا عوام کی نجات کے معنوں میں نہیں  رکھتا ہے  اسی طرح موصل کے عوام کو بھی داعش سے آزاد کروانا کافی نہیں ہو گا ۔

اس دائرہ کار میں موصل کو داعش سے پاک کروانے کے بعد عوام کے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرنے کے لیے امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری   مقامی انتظامیہ پر ہی    عائد ہوتی ہے ۔عراق حکومت اور اتحادی ممالک کی ذمہ داری  صرف موصل کو بچانے کی ہی نہیں ہے بلکہ   2003 سے وہ جن  معاملات کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں انھیں بھی حل کرنا ہے ۔ حکومت عراق موصل کے عوام کے دل جیت کر ہی یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔

 



متعللقہ خبریں