ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔21

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔21

496963
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔21

 

سولہ مئی  کو سائکس ۔پیکوٹ معاہدے کا صد سالہ  یوم تھا ۔ معاہدہ تیار کرنے والے برطانوی اور فرانسیسی  ڈپلومیٹ  سائکس ۔پیکوٹ کو اس معاہدے کا نام دیا گیا ہے ۔ اس خفیہ معاہدے کی رو سے سلطنت عثمانیہ کی زیر حکمرانی مشرق وسطیٰ کے علاقوں کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان تقسیم کرنا  تھا۔یہ معاہدہ ان کی آپس کی سودا بازی کی دستاویز تھا ۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کا اس معاہدے کی رو سے  نئے سرے سے تعین کیا گیا ۔ممالک کی سرحدوں کے تعین کے وقت وہاں بسنے والے عوام کی کوئی رائے نہ لی گئی۔سلطنت عثمانیہ  کے دور کے بعد مشرق وسطیٰ میں سائکس ۔پیکوٹ نظام رائج ہوا  جو علاقے میں سراسیمگی اور خوف  وہراس کا باعث بنا۔ مشرق وسطیٰ اور خاصکر عراق اور شام  کی صورتحال کا ذمہ دار اس معاہدے کو دکھایا جاتا ہے ۔

سائکس ۔پیکوٹ معاہدے کو مورد الزام ٹھہرانے والے دعووں کی مخالفت کرنے والے بھی موجود ہیں ۔ان کیمطابق اس معاہدے پر الزام تراشی کرنے والوں کے دعوے غیر حقیقی ہیں  ۔یہ نکتہ چینیاں معاہدے پر تنقید کرنے والوں کے دعووں سے تضاد رکھتی ہیں ۔دعووں کیمطابق سائکس ۔پیکوٹ معاہدے نے مشرق وسطیٰ میں فرانس اور برطانیہ  کے لیے اثرورسوخ کی زمین ہموار کی  لیکن اصل سرحدوں کا تعین بعد میں ہونے والوں معاہدوں کے تحت کیا گیا تھا ۔ سرحدوں کے فرضی ہونے کے موضوع پر تنقید بھی درست نہیں ہے کیونکہ دینی اور نسلی لحاظ سے متعدد اقوام کے جائے پناہ اس علاقے میں یکساں نفوس پر مشتمل سرحدوں کا تعین کرنا نا ممکن تھا ۔  علاوہ ازیں ،جس طرح ترکوں نے جدوجہد کیساتھ سیرو معاہدے کو نامنظور کیا تھا عرب بھی اس معاہدے کو  نامنظور کر سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک صدی گزرنےکے بعد علاقے کے عوام خاصکر عربوں کو  درپیش مسائل کیوجہ سائکس ۔پیکوٹ معاہدے کو مورد الزم ٹھہرانے کے بجائے اپنے آپ کو درپیش مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی ضرور ت ہے ۔

مشرق وسطیٰ کو اس وقت جن کھٹن حالات کا سامنا ہے اس کی ذمہ داری صرف سامراجی طاقتوں  یا پھر علاقائی عوام پر  نہیں ڈالی جا سکتی ۔صورتحال کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے کے لیے متعدد تاریخی واقعات

، پیش رفت اور حقائق  کے تجزیے کی ضرورت ہے ۔

اس حقیقت کو قبول کرنا چاہئیے کہ عرب ممالک کی   جمہوری عمل اور اقتصادی ترقی  میں ناکامیاں موجودہ صورتحال  کا سبب ہیں لیکن ان ناکامیوں کے پس پردہ موجود  اسباب زیادہ اہمیت کا حامل ہیں ۔   اناکامیوں کے ایک  سبب کا تعلق عرب  سربراہان کے بیرونی ممالک کیساتھ تعلقات  سے ہے ۔ ان تعلقات کا جائزہ لینے سے ہمارے سامنے سائکس ۔پیکوٹ معاہدہ  آ جاتا ہے ۔ اصل  مسئلے کا تعلق   1916 اور اس کے بعد  سے نہیں بلکہ اس وقت  پیش آنے والے واقعات کے پس پردہ حقائق جاننے کے لیے 1916 سے پہلی کی صدی  میں پائی جانے والی سامراجی ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت  ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ    یہ  ذہنیت 1916 کے بعد بھی اپنے نظریات کو علاقائی عوام سے زبردستی قبول کروانے    کے لیے سر گرم عمل رہی تھی۔ اس صورتحال کو بھی مد نظر رکھنا چاہئیے ۔ 1916 کے بعد منظر عام پر آنے والے تین اہم عناصر جو علاقائی عوام کی ذمہ داریوں کو سنھبالنے والے ڈیموکریٹک ڈھانچے کے   منظر پر آنے کی راہ میں رکاوٹ بنے وہ یہ ہیں ۔

1۔ علاقائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے والے مسئلہ فلسطین کھڑا کرنے میں خاصکر برطانیہ، امریکہ اور مغربی ممالک نے  اہم کردار ادا کیا ہے ۔

  ۔2 مغربی ممالک   1930  کے بعد علاقے سے دریافت ہونے والے پٹرول کے ذخائر کوہر قیمت پر اپنے استعمال میں لانا چاہتے تھے۔

3۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سر دجنگ کے دور میں امریکہ اور روس کے درمیان رقابت علاقے میں جنگوں  کا سبب بنی ۔

ان تین عناصر کا  علاقے پر حکمرانی کرنے والی مطلق العنان حکومتوں اور فوجی  انتظامیہ کی کارکردگیوں کیساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ یہ صورتحال 1950 کی دھائی میں علاقے میں جمہوری قانونی مملکت  کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ ان حالات میں جو  تین عناصر سامنےآئے  وہ یہ ہیں ۔

مطلق العنان اور عوام  سے لا تعلق  بدعنوان حکومتیں ، سپر طاقتوں کی فوجی کاروائیوں کا سامنے کرنے والے علاقے اور عرب۔ اسرائیل جھڑپ علاقے کےبنیادی مسا ئل کے  طور پر سامنے  آئے۔

آخری صدی مشرق وسطی کے لیے انتہائی نازک اور مسائل سے بھرپور صدی ثابت ہوئی۔اس صدی  کے منفی عناصر کو حرکت میں لانے والی سائکس ۔پیکوٹ معاہدہ تیار کرنے والی   ذہنیت  تھی ۔ اس معاہدے کو تمام مسائل کی جڑ کے طور پر دکھانے کی وجہ بذات خود معاہدہ نہیں تھا  لیکن یہ معاہدہ  اس ذہنیت کی نشانی بن گیا تھا ۔ اس ذہنیت نے معاہدہ طے ہونے سے پہلے اور بعد کی صدی میں علاقائی پیش رفت پر اپنی مہر ثبت کی تھی ۔



متعللقہ خبریں