ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 19

دنیا "گولڈن بیچ" کے نام سے سینکڑوں سال تک گھانا  کا استحصال کرتی رہی ہے

488973
ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 19

پروگرام "ترکی کی امدادی سرگرمیاں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ دنیا "گولڈن بیچ" کے نام سے سینکڑوں سال تک گھانا  کا استحصال کرتی رہی ہے۔ لیکن ترکی نے گھانا کے ایک یتیم خانے میں قوت سماعت و گویائی سے محروم  معذور بچوں کو بہت خوش کیا ہے۔ آج ہم ،گھانا کی مختصر تاریخ  کو اور گھانا کے لئے  ترکی کے نقطہ نظر کو ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان  کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

 

اگرچہ افریقہ مختلف نسلی گروپوں  کے تشکیل کردہ  ممالک پر مشتمل  ہے لیکن اس کے باوجود  ایک مشترکہ حافظے کا مالک ہے۔ دیگر برّاعظموں کے برعکس افریقہ میں غم ہو یا خوشی نہایت تیزی سے پورے برّاعظم میں پھیل جاتی ہے۔ مغرب کی نگاہ سے دیکھنے پر بھی اصل میں ہر سیاہ رنگت والا افریقی ہی ہے۔ مغربی یا پھر زیادہ ترقی یافتہ قومیں افریقیوں کے درمیان  فرق  کا ذکر کرنے تک کی بھی اکثر  اوقات ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ وہ ہم سب کی نگاہوں میں ایک ہی جیسے ہیں۔

 

اس وقت مجھے ،ایک گرم دن  کی دوپہر  میں سوڈان کے علاقے دارفور  کے تھوڑے سے درختوں میں سے ایک  کے سائے تلے دارفور کے گورنر کے ساتھ  اپنی صحبت  یاد آ رہی ہے۔ مجھ سمیت ایک گروپ نے دارفور کے گورنر کے ساتھ ملاقات کی اور گفتگو کے دوران کہا کہ "آپ کے ملک میں اس قدر معدنی وسائل موجود ہیں کہ اگر انہیں نکالا جائے  تووہ سب مسائل ختم ہو سکتے ہیں کہ جو اس وقت آپ کو درپیش ہیں"۔ گورنر نے ہمیں جو جواب دیا وہ افریقہ کے مشترکہ حافظے کا عکاس  تھا۔ گورنر نے کہا کہ "اگر ان وسائل کو نکالنے کا کام شروع کیا جائے تو ہماری غربت میں خانہ جنگی کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت ہم صرف غریب ہیں لیکن وسائل نکالنے کی صورت میں ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بھی مجبور کر دئیے جائیں گے۔ زندگی  نے بالکل دارفور کے گورنر کے الفاظ کے مطابق شکل اختیار کی۔ جدید حکومتیں آئیں اور دارفور کے معدنی وسائل پر نگاہیں  گاڑ لیں۔ ایک طویل جنگ  کا دور گزرا اور سوڈان اور دارفور ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔

 

ماضی میں افریقیوں نے گھانا میں برّاعظم کی پہلی شہنشاہی قائم کی ۔اپنے قبائلی ماضی  کی روایات  کے ساتھ  زندگی کو امن کے ساتھ گزارا لیکن  امن  و امان یورپیوں  کے ساتھ پہلی ملاقات تک ہی قائم رہ سکا۔ گھانا کے ساحلوں پر سب سے پہلے پرتگالیوں نے قدم رکھا اس کے    بعد دیگر یورپی  استعماری  طاقتیں یہاں پہنچیں۔ ان استعماری قوتوں نے گھانا کے عوام کو اسلحہ دیا اور اس کے بدلے میں ان  سے سونا لیا۔ گھانا ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر پائے  جاتے ہیں۔ انگریزوں نے گھانا کے ساحلوں کو گولڈن بیچز کا نام دیا اور برطانیہ میں ایک طویل عرصے تک گھانا کو اسی نام سے پہچانا جاتا رہا۔ مغربی طاقتوں نے بارانی جگلات سے ڈھکے، معدنی ذخائر سے مالا مال  اور زرعی اراضی  کے مالک اس ملک کو سینکڑوں سال تک لوٹا۔ بیسویں صدی  کے وسط میں کہ جب استعماری طاقتوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اب استعماریت پہلے کی طرح ممکن نہیں رہی  تو  گھانا وہ پہلا ملک تھا جس نے برّ اعظم افریقہ میں سب سے پہلے اعلان آزادی کیا۔ لیکن استعماری طاقتوں نے پھر بھی گھانا کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ملک نے 1950 میں اعلان آزادی  کیا  اور اس کے بعد تقریباً تقریباً ہر 5 سال میں ایک دفعہ مارشل لاء لگتا رہا۔ 2000 کے سالوں میں ملک میں جزوی طور پر استحکام کا قیام ہوا۔ اس وقت ملک کی آبادی 25 ملین ہے۔ اقتصادی انڈیکیٹر ہر سال کچھ بہتری کی طرف جا رہے ہیں لیکن  ملک میں فی کس قومی آمدنی ایک ہزار 500 ڈالر  کی سطح پر ہے۔ صحت اور بنیادی ضروریات  کو بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے۔  ملک میں بچوں کی اموات کی شرح  ابھی تک بلند ہے۔ ملیریا  کی وجہ سے ابھی بھی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ بچوں میں مستقل     بیماریاں ابھی بھی موجود ہیں۔ بین الاقوامی امدادی تنظیمیں  اپنے ساتھ جو امدادی رقوم لاتی ہیں اس سے پہلے یہاں اپنے لئے ایک قلعے جیسا امدادی دفتر بناتی ہیں۔ اس قلعے کی حفاظت کے لئے سکیورٹی گارڈوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ تیز رفتار لگژری  لینڈ وہیکل خریدتی ہیں اور ان سب اخراجات کے بعد جو رقم بچ جاتی ہے اسے غریب افریقیوں کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

 

یہیں وہ اصطلاح  خود کو نمایاں کرتی ہے جسے عالمی زبان میں "  ترک اسٹائل کی امداد" کہا جاتا ہے۔ ترکی کی سرکاری امدادی تنظیمیں  یا پھر ترکی الاصل سول سوسائٹی تنظیمیں ذاتی آسائش کے لئے  وہ تمام  مصارف نہیں کرتیں کہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ بلکہ جس بھی ملک میں جاتی ہیں وہاں عوام  کے اندر رہتی ہیں اور عوام کے زیر  استعمال  گاڑیوں کو استعمال کرتی ہیں۔

 

ترکی کی افریقہ  کی طرف توجہ میں تاخیر کے بعد گذشتہ مہینوں میں صدر رجب طیب ایردوا ن  نےاپنی اہلیہ امینہ ایردوان اور کاروباری افراد کے ایک وفد کے ہمراہ  گھانا کا دورہ کیا۔ صدر ایردوان اور  کاروباری افراد کے وفد  نے گھانا کے  صدرا ور کاروباری افراد کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں کیں  جبکہ صدر ایردوان کی اہلیہ امینہ ایردوان نے ایک یتیم خانے کا دورہ کیا۔ یہ یتیم خانہ سینکڑوں سالوں کی استبدادیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اس یتیم خانے کی ایک اور انفرادی خصوصیت بھی موجود تھی۔ یتیم خانے میں 4 سے 12 سال  عمروں کے 80  قوتِ سماعت و گویائی  سے محروم بچے  موجود تھے۔ ان گونگے اور بہرے بچوں نے موسیقی کے ساتھ  ڈانس کر کے مہمانوں کا استقبال کیا۔ انہیں یہ ڈانس سکھانے والی  ایک ترک امدادی تنظیم تھی۔ ترکی کی تعاون و ترقیاتی تنظیم اپنے مختصر نام کے ساتھ تیکا وہاں پہنچی اور یتیم خانے تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ تیکا نے یہاں کے 80 گونگے بہرے بچوں کے لئے  صوتی آلے کہ جن کی مالیت کچھ بہت زیادہ نہیں تھی فراہم کئے ۔ ان آلات کی مدد سے ان بچوں نے سننا اور بعض بچوں نے بولنا بھی شروع کر دیا تھا۔ باقی گونگے بہرے بچوں کے لئے بھی بول سکنے کا امکان موجود تھا۔ تیکا  ان بچوں کا طبّی معائنہ کرتی  ہے اور ان کے لئے موزوں صوتی آلے کی فراہمی  کا کام شروع کر دیتی ہے۔ صدر ایردوان کی اہلیہ نے گھانا  کے مستقبل کے بارے میں  اپنی امیدواں کو ان الفاظ میں بیان کیا " میں اس بات پر بھرپور یقین رکھتی ہوں کہ اگر ملک کی نوجوان آبادی اور ملکی وسائل کو ٹھیک طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ملک  برّاعظم افریقہ میں ایک حیات نو حاصل کر لے گا"۔

جی ہاں ، گھانا بھی ہمارے ملک ترکی کی طرح  اپنی جڑوں میں شہنشاہیت کی روایت رکھتا ہے۔ اس ملک کو استعماری طاقتوں نے خواہ کیسا ہی کیوں نہ   لوٹا ہو اس کے اندر دوبارہ سے جنم لینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس حیات نو کے لئے بس  ایک دوست کے مددگار ہاتھ کی ضرورت ہے جو اسے ان مشکل دنوں میں دوبارہ سے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے۔  یہ دوست ہاتھ بلا مبالغہ ترکی کا ہاتھ ہو گا کہ جو گھانا میں گونگے بہرے بچوں تک کو فراموش نہیں کر رہا۔ ترکی پورے افریقہ کی طرح گھانا میں بھی دوستی کا بیج بوتا رہے  گا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ اب بو رہا ہے۔



متعللقہ خبریں