ترکی کی تاریخی ،سیاحتی و ثقافتی اقدار39

وان تاریخی خزانوں سے مالامال شہر

140657
ترکی کی  تاریخی ،سیاحتی و ثقافتی اقدار39

: مشرقی اناطولیہ کے تاریخی و قدرتی خزانے سے مالا مال شہر کا نام وان ہے کہ جو صدیوں نے مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ شہر اورارت ریاست کا صدر مقام رہا ۔ آج کے اس پروگرام میں ہم آپ کو اس شہر کی مختلف ثقافتی سرگرمیوں اور تاریخی آثار کے بارے میں بتانے کی کوشش کریں گے۔
اورارات قوم سے لے کر عثمانیوں تک یہاں موجود قلعہ وان شہر کے اہم سیاحتی مراکز میں شمار ہوتا ہے ۔قلعے میں موجود قبروں کے علاوہ یہاں سے کھدائی کے نتیجے میں بازیاب ہونے والے بعض نوادرات بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتےہیں۔ یہ نوادرات وان کے عجائب خانے میں نمائش کےلیے رکھے گئے ہیں۔ وان کے عجائب خا نے کے دو حصے ہیں جن میں ایک تاریخی اور دوسرا ثقافتی ہے ۔ تاریخی حصے میں قدیم تہذیب اور تاریخی ادوار سے وابستہ آثار موجود ہیں جبکہ ثقافتی حصے میں پرانی تحاریر،کتبے اور سکے رکھے گئے ہیں۔ وان میں کافی تعداد میں قلعے موجود ہیں جس کی وجہ سے اسے قلعوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے لیکن ان میں سب سے اہم قعلہ وان ہے جو کہ شہر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس قلعے کی طوالت 1800 میٹر ہے کہ جس کی دور عثمانی میں از سر نو مرمت کی گئی تھی ۔ اس قلعے میں مسجد،گودام ،مدرسہ اور پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام موجود ہے۔
قلعے کے دامن میں چودہویں صدی سے وابستہ اولو جامع مسجد ، قایا چلیبی مسجد اور سولہویں صدی میں معمارر سنان کی طرف سے تعمیر کردہ خسرو پاشا مسجد ہے۔ان کے علاوہ علاقے میں متعدد بہترین عثمانی تعمیراتی نمونے موجود ہیں۔
وان کی جھیل کے شمال مغرب میں واقع احلات اور یہاں موجود قبریں ترکوں کی طرف سے وفات پانے والے افراد کی تعظیم اور ان کے احترام کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جو کہ شائد اناطولیہ کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے ۔ احلات کا تاریخی شہر متعدد تہذیبوں کے زیر تسلط رہا۔بازنطینیوں کے بعد یہ علاقہ حضرتِ عمر کے دور خلافت میں مسلمانوں کے قبضے میں آگیا جس کے بعد مختلف مسلم ریاستوں کی حکمرانی اور بالاخر سو لہویں صدی میں عثمانیوں کے زیر تسلط آگیا ۔ پرانے دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ احلات کی آبادی تقریباً تین لاکھ افراد پر مشتمل تھی جس کی وجہ سے یہاں کا قبرستان کافی بڑا کہلاتا ہے۔
احلات کے تاریخی قبرستان میں باعث توجہ اولو گنبد ہے جو کہ تیرہویں صدی کے دوسرے حصے میں تعمیر کیا گیا تھا اور جسے ساقرد گنبد کہا جاتا ہے۔ دو منزلہ اس گنبد کے زیریں حصے میں حنوط شدہ جسم رکھے گئے ہیں جبکہ بالائی منزل پر قبریں موجود ہیں۔ یہ گنبد سلچوکی طرزِ تعمیر کا اعلی نمونہ ہے ۔اس کے علاوہ ایک دیگر گنبد حسن پاشا کے نام سے مشہور ہے کہ یہ بھی تیرہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اس گنبد پر سفید پتھروں کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے کہ جسے یاووز سلطان سلیم خان کی طرف سے تعمیر کروایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں احلات کے قلعے میں اسکندر پاشا اور قاضی مراد نامی مساجد بھی کافی نام رکھتی ہیں۔
وان جھیل سطح سمندر سے 1٫646 میٹر بلند اور 3٫713 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ وان جھیل ترکی کی سب سے بڑی جھیل ہے کہ جسکے وسط میں واقع اکدامار ،قوشا داسی ،چارپاناک اور غدیر نامی جزائر اپنی فطری خوبصورتی کے حوالے سے مشہور ہیں خاص کر اک دامار کا جزیرہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ وان جھیل سے بتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ارچک نامی جھیل بھی واقع ہے ۔
وان جھیل کے جنوب میں واقع اکدامار کے جزیرے کی سیر دن کے وقت موٹر بوٹس کے ذریعے کرنا ممکن ہے ۔اس جزیرے میں آرتھڈوکس فرقے سے وابستہ ایک گرجا گھر بھی موجود ہے جو کہ جنگ عظیم اول کے دور تک استعمال میں رہا بعد ازاں ا سے ایک عجائب خانے میں تبدیل کر دیا گیا ۔اس گرجا گھر سے متعلق ایک افسانہ بھی مقبول ہے کہ جس میں ایک پادری کی بیٹی ترک چرواہے کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
وان میں دست کاریوں کو ماضی سے ایک خاص درجہ حاصل ہے ۔ یہاں کے بنے غالیچے بھی اپنی مثال آپ ہے کہ جنہیں صرف اون سے بنا جاتا ہے۔ان غالیچوں میں علاقے کی مختلف جڑی بوٹیوں اور پھولوں کی نقش و نگاری انتہائی مہارت سے کی جاتی ہے کہ جن میں کتھئی اور سفید رنگ کا بخوبی استعمال کیا جاتا ہے۔ پکوانوں کے اعتبار سے بھی یہ شہر کافی شہرت رکھتا ہے ۔ان میں وان کی پنیر قابلِ ذکر ہے کہ جس میں صرف اسی علاقے میں اگنے والی بعض جڑی بوٹیاں بھی شامل کی جا تی ہیں۔اس کے علاوہ وان جھیل سے حاصل ہونے والی مچھلی بھی کافی لذیذ مانی جاتی ہے


ٹیگز:

متعللقہ خبریں