صحت و سیاحت 24

110257
صحت و سیاحت 24

: زمین کی کوکھ سے پھوٹنے والے شفا بخش پانی دنیا کے بیشتر علاقوں میں لا تعداد تہاذیب کا حصہ بنے رہے ہیں۔ ابتدائی ادوار سے دور حاضر تک گرم پانی کے یہ چشمے جسمانی صفائی اور بعض امراض میں وسیلہ شفا بنتے رہے ۔ ترکی میں اس وقت پندرہ سو کے لگ بھگ گرم پانی کے چشمے ہیں جو کہ اناطولیہ میں بسنے والی مختلف اقوام کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔ قدیم دور میں ان پانیوں کے اطراف میں تعمیر کردہ بعض حماموں اور دیگر عمارتوں کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دو ہزار سال قبل استعمال میں لائے جانے والے ان چشموں میں سے اکثر کی تزیئن و مرمت اتنی بہتر تھی کہ یہ آج بھی اپنے پیروں پر کھڑے رہنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
اناطولیہ کے شفا بخش پانیوں سے مشہور ایک دیگر شہر دارالحکومت انقرہ بھی ہے ۔ انقرہ کے شمال میں واقع قزل جا حمام کے گرم پانی کے چشمے اپنی مثال آپ ہیں جس کی شہرت بھی ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتی ہے۔ قزل جا حمام کے ان چشموں کی تاریخ کا تعلق عہد روم سے بتایا جاتا ہے ۔
شاہ بلوط کے گھنے درختون کے درمیان واقع قزل جا حمام سیاحت کے حوالے سے انقرہ کی سب سے متحرک تحصیل ہے کہ جہاں ہر سال اندرونِ وبیرونِ ملک سے ہزارں زائرین ان پانیوں کے وسیلے سے شفا حاصل کرنے کےلیے آتےہیں۔
قزل جا حمام کے پانی میں بائی کاربونیٹ ، کلورین ، سوڈیئم ،کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آرسینک کی آمیزش ہے جس کا درجہ حرارت چوالیس تا چھیاسی ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔ گرم پانی کے ان چشموں سے فیض یاب ہونے کےلیے یہاں قائم پُر تعیش ہوٹلوں میں قیام و طعام کا بھی خاص انتظام ہے ۔ قزل جا حمام کے چشمے گٹھیا ، قلب و شریان ، پٹھوں کے کھنچاو ، جگر، مثانے جیسے امراض میں مفید ہے جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں کے پانی نظامِ ہضم اور بد خوراکی سمیت بعض نفسیاتی بیماریوں میں بھی اکسیر ہیں۔
قزل جا حمام کی تحصیل کی شہرت گرم پانی کے ان چشموں کے علاوہ معدنی پانی کی وجہ سے مانی جاتی ہے کہ جہاں ہر سال اس سلسلے میں ایک میلے کا بھی اہتمام کیا جا تا ہے ۔ یہاں سے نکلنے والے اس معدنی پانی کو بوتلوں میں بھر کر ملک کے دیگر علاقوں میں بھی فروخت کےلیے بھیجا جاتا ہے ۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں اس میلے کے اہتمام کا مقصد تحصیل کو اندرون و بیرونِ ملک بہتر انداز میں متعارف کروانا ہے ۔

صدائے ترکی سے آپ پروگرام صحت و سیاحت سن رہے ہیں کہ جس میں ہم آپ کو انقرہ کی تحصیل قزل جام حمام اور اس کے گرم پانی کے چشموں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
انقرہ کے دیگر گرم پانی کے چشموں میں حائمانا کا بھی شمار ہوتا ہے جو کہ انقرہ سے تہتر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ حائمانا کے ان گرم پانی کے چشموں کی تاریخ کا ذکر حطیطی دور میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے دو ہزار سال قبل اس علاقے میں قیام کیا تھا اس کے علا وہ ماہرین کے اندازے کے مطابق یہاں نکلنے والی ان چشموں کی تاریخ تقریباً چار ہزار سال پرانی تصور کی جاتی ہے۔ کی جانے والی کھدائی کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ تیسری صدی قبل مسیح میں اس علاقے میں بسی گالاتا قوم ان چشموں سے فیض یاب ہوتی رہی ہے۔ اس قوم نے ان پانیوں کو گلاتیا سالوتاریس یعنی شفا بخش پانی کا نام دیا تھا ۔ اس کے علاوہ رومی قوم بھی حائمانا کے ان چشموں کو استعمال میں لاتی رہی ہے ۔
حائمانا کے ان گرم پانی کے چشموں کا درجہ حرارت چوالیس تا پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے جس میں بائی کاربونیٹ ، کیلشئیم ، سوڈیئم،میگنیزئم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہے جو کہ نہانے اور پینے کے قابل ہے ۔ یہ شفا بخش پانی گٹھیا ، قلب و شریان امراضِ تنفس اور خواتین کو لاحق بعض بیماریوں میں اکسیر ہے ۔ یہاں کے پانی کو پینے سے معدے ، جگر ، پتے اور مثانے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
انقرہ کے قریب ہونے کی وجہ سے حائمانا تک رسائی کافی آسا ن ہے کہ جہاں قیام کےلیے ہوٹلوں کی بھی کافی تعداد موجود ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں