عالمی ذرائع ابلاغ

28.06.17

760722
عالمی ذرائع ابلاغ

یورپی   نشریاتی و اشاعتی ادارے نے "مسئلہ قبرص کے  حل  کا ایک نیا موقع"  کے  زیر ِ عنوان لکھا ہے کہ اقوام ِ متحدہ کی نگرانی  میں   قبرص کانفرس کا انعقاد  آج سے سوئس شہر  کرینز مونتانہ  میں ہو رہا ہے، یہ کانفرس   ماہ   جنوری میں منعقدہ  جنیوا کانفرس کے دوام کی  خصوصیت کی  مالک ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے  مشیرِ خاص برائے قبرص اسپین بارتھ ایدے  کا اس  حوالے سے کہنا ہے کہ "میرے نزدیک  ان مذاکرات کو آخری موقع کے بجائے، بہترین موقع کی نظر سے    دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ یہ   ایک    بے نظیر  موقع  ثابت ہوگا  اور اگر اس سے استفادہ نہ کیا گیا تو  یہ انتہائی  افسوس دہ ہو گا۔ میں  سمجھتا ہوں کہ تمام  تر شرکاء کانفرس      بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔"  مئی  2015 میں  دوبارہ سے شروع ہونے والے  مذاکرات، "اقتصادیات"، "یورپی یونین"، "ملکیت"، "انتظامیہ میں طاقت کی تقسیم"،  "علاقوں کی تقسیم" اور "سلامتی  و ضمانت"      پر مبنی  6 بنیادی  عنوانات     پر سر انجام دیے جا رہے ہیں۔

روسی  بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی سپوتنک  نے لکھا ہے کہ "ترکی کے سابق  صدر عبداللہ گل نے روسی  ٹیلی ویژن   RT سے انٹرویو میں  بتایا   ہے کہ ترک حکومت کردی عوام  کے خلاف نہیں  بلکہ علیحدگی پسند تنظیم  PKK  سے تعلق ہونے والے کردی گروہوں کے خلاف نبرد ِ آزما ہے۔ "

انٹرویو  میں   جناب    گل نے بتایا کہ" ترکی اور  شام کے   درمیان  900 کلو میٹر طویل سرحد موجود  ہے، جس بنا پر اس ملک  میں جاری خانہ جنگی سے ترکی بھی متاثر ہو رہا ہے، لہذا   اس مسئلے کے حل میں  ہمیں  بھی  جگہ  لینی  ہو گی۔"  شمالی  شام  کے کشیدہ حالات پر بھی توجہ مبذول کرانے والے سابق صدر کا کہنا تھا کہ "ہم کردی   شہریوں  کے خلاف نہیں  ہیں۔ ہم  جن  معاملات  پر   رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: "علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم سے رابطہ ہونے والے بعض  کردی گروہ  اپنے   کنٹرول میں ہونے والے علاقوں کو وسعت  دے رہے ہیں اور علاقوں کی نفوس کے ڈھانچے کو جبراً  تبدیل کرنے کے درپے  ہیں۔ یہ   حرکتیں  فطری  طور پر  ناقابل ِ قبول ہیں  جو کہ  انتقامی  کاروائیوں کو شہہ  دینے کا موجب بن رہی ہیں۔  یہ تمام تر پیش  رفت  ہمارے  لیے  باعثِ خدشات ہے۔"

وائس آف امریکہ کے مطابق "یورپ میں مقیم  ترکوں کی اکثریت   ایردوان کی حمایتی ہے۔

یورپی ترک ڈیموکریٹس  یونین کے زیر  اہتمام    جرمنی، فرانس اور ہالینڈ میں  مقیم دوسری اور تیسری  نسل کے ترک باشندوں کے درمیان "سیاسی و سماجی شراکت"  کے عنوان سے     کیے گئے    ایک سروے کے نتائج   کا اعلان کر دیا گیا ہے۔   جن کے مطابق  حالیہ برسوں میں  ترکی میں منعقد ہونے والے انتخابات    کے نتائج  مذکورہ تین ملکوں  میں مقیم  ترک تارکین وطن کی ترجیح   کی تصدیق  کرتے   ہیں۔ تا ہم  ترک مہاجرین     کی صدر  رجب طیب ایردوان سے  ہمدردی اور لگاؤ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ  پارٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہالینڈ میں صدر ترکی کے  حمایتیوں کا تناسب  73 فیصد ہے تو  آق پارٹی   سے وابستگی کی شرح 53 فیصد تک ہے۔ فرانس  میں  یہ شرح  بالترتیب  65 اور 50 فیصد  جبکہ جرمنی میں 66 اور 46 فیصد   ہے۔

کریمیا  خبر ایجنسی  QHA   نے اطلاع دی   ہے کہ  "یوکیرین ترکی کو زرعی اجناس  کی ترسیل کی مقدار میں اضافہ کر سکتا ہے۔"

زرعی پالیسیوں و خوراک   امور کی نائب وزیر اولگا تروفمستیوا  کا کہنا  ہے کہ یورپ میں     زرعی مصنوعات  کی پیداوار  میں   چوتھی پوزیشن پر آنے  والے اور  اس  شعبے میں  ایک  مضبوط   پوزیشن کا مالک  ترکی    یوکیرین  سمیت بعض دیگر ملکوں سے  بعض مصنوعات کی درآمدات کر رہا ہے۔  اب دونوں ملک اس شعبے میں  تعاون کو مزید آگے بڑھانے کی کوششوں  میں ہیں،  جس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو قابل ذکر  حد تک   فائدہ پہنچے  گا۔

 



متعللقہ خبریں